کے خلاف ہے وہ اس قصّہ سے ثابت ہوگئی لیکن حنفیہ اسکو منسوخ کہیں گے کہ اس زمانہ کے بعد منسوخ ہوگئی۔ اب نوافل کے لئے اذان نہیں حتیٰ کی عیدین جو واجب یا سنت ہیں وہ بھی بلا اذان ہیں۔
باب أذان السفر
بہتر تو جمع بین الاذان والاقامت ہے اقتصار علیٰ احدہما بھی جائز ہے دونو ں کا ترک مکروہ ہے۔ یہ دو شخص اور تمام امور مساوی ہونگے لہٰذا زیادہ عمر والے کو امامت کا حکم فرمایا یا اکبر باعتبار علم کے مراد ہو۔
باب الامام ضامنِ
یعنی صحت و فساد اسکے ذمہ ہے چنانچہ حنفیہ کے یہاں صحت صلوٰۃ مقتدیان مشروط ہے صحت صلوٰۃ امام پر یہی حدیث انکی حجت ہے کہ امام گویا مقتدیوں کی صلوٰۃ کو اپنی نماز کے ضمن میں لئے ہوئے ہے بلکہ محققین کی رائے ہے کہ امام ومقتدی کی نمازیں دو نہیں بلکہ ایک ہیں اس لئے اسکے حسن کے ساتھ انکی نماز میں حُسن آتا ہے اور اسی لئے امام سب سے افضل کو بنانا مناست ہے۔
باب کراہیۃ الاجر للمؤذن
عبادات پر اجرت لینا عند الامام درست نہیں دیگر حضرات کو اس استحباب پر حمل فرمائیں گے۔
باب کم فرض اللّہ الصّلوات
لا یبدل القول لدی کے یا تو یہ معنیٰ کے ہمارے علم میں وہ چیز موجود تھی جو واقع ہونے والی ہے۔ پس ہمارے اعتبار سے قول میں تبدیلی نہیں ہوئی بلکہ جو کچھ واقع ہوتا ہم کو معلوم تھا وہی ہوا۔ یا یہ کہ ایک بات تمہارے متعلق تھی یعنی ادائے صلوٰۃ تو وہ بدل کر پچاس سے پانچ ہوگئی اور ایک ہمارے متعلق تھی یعنی اعطائے اجر، وہ بدستور رہا اسمیں کمی بیشی نہیں ہوئی۔ یہ معنی لک بھذا الخمس خمسین کے مناسب ہیں۔ فرض آپ ﷺ پر بھی پانچ نمازیں تھیں۔ گو آپ ﷺ پچاس ہی ادا فرماتے ہوں۔
باب فضل الصلوٰۃ
ظاہر حدیث سے معتزلہ نے استدلال کیا ہے کہ جب تک کبیرہ سرزد نہ ہو گناہ معاف ہوتے رہتے ہیں۔ بعد کبیرہ کے معاف نہیں ہوتے لیکن وہ اسکو سمجھے نہیں کیونکہ بر تقدیر ارتکاب کبیرہ مطلقًا کفارہ کی نفی نہیں بلکہ کل کے کفارہ کی نفی ہے کیونکہ ما عموم کے لیے ہے۔ پس مطلب یہ ہے کہ امور اپنے مابین کے کل معاصی کے مکفر ہیں اسکا مفہوم مخالف یہ ہوگا کہ بر