خاص پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ اس قسم کے محاورہ پر وہ حدیث بھی شاہد کہ ابوہریرہ ؓ آنحضرت ﷺ سے ملے اور آپ ﷺ نے انکا ہاتھ پکڑا۔ پھر وہ وہاں سے آہستہ سے علیٰحدہ ہوگئے جب حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایاکہ ابوہریرہ ؓ آپ کہاں چلے گئے تھے۔ عرض کیا کہ بندہ جنبی تھا اس لئے آپ ﷺ سے مجالست کو مکروہ سمجھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ المؤمن لا ینجس اس سے بھی یہی مراد ہے کہ اس قسم کے امور احتلام وجنابت سے مومن ایسا نجس نہیں ہوجاتا کہ قابل ملاقات ومجالست نہ رہے یہ مطلب نہیں کہ سارا بدن نجاست سے تربتر ہو اور پھر بھی المؤمن لا ینجسکہاجاوے۔ یہ دوسرا طرز جواب کا قرین قیاس معلوم ہوتا ہے اور پہلا طرز شراح ومحشیوں میں مشہور ہے۔ پس حنفیہ احد الجوابین کو پیش کرکے حدیث کا مطلب بیان کریں گے ورنہ اور روایات کا خلاف ومعارضہ لازم آئے گا۔
باب حدیث القلتین
اس حدیث کو حنفیہ نہیں لیتے ورنہ تحدیدِ امر شرعی قیاس سے لازم آئے گی جیسا کہ شافعیہ نے کیا ہے۔ کیونکہ کثرت کی حد جب قلتین ٹھیری یعنی اس سے کم قلیل اور اس قدر مقدار کثیر مانی گئی تو قلتین حد معین ہوئی حالانکہ یہ معلوم نہیں کہ قلتین کی کیا مقدار ہے؟اول تو خود روایات میں بعض میں قلتین أو ثلث قلال وارد ہے بعض میں أربعین قلال ہے دیکھئے کِس قدر فرق ہے۔ خیر اگر قلتینکی حدیث کو اصح رکھیں تو پھر قلتین کی مقدار معین نہیں کوئی خمس قرب کہتا ہے کوئی غرب [دلو عظیم یعنی چرس] بتلاتا ہے چنانچہ جب قلۃ کی تحقیق ہوئی تو دو مشک سے کچھ زیادہ ہوتا تھا۔ شافعیہ نے حساب پورا کرنے کو اڑھائی مشک قرار دی چنانچہ ترمذی بھی کہتے ہیں کہ قالوا یکون نحوًا من خمس قرب چونکہ قلہ ہر قسم کے خم[شراب کا مٹکا] وسبو [مٹکا]کو کہتے تھے اور یہ ہر شہر ودیار میں مختلف ہوتے تھے۔ لہذا اب شافعیہ کو اس روایت سے مدد لینی پڑی جو بروایت شافعیہ مروی ہے جس میں من قلال ھجر [نام قریہ]کی قید زیادہ ہے۔ پھر چونکہ مقام ہجر میں بھی مختلف قلال تھے لہذا وہاں کا سب سے بڑا قلہ احتیاطا اختیار کیا گیا۔ پس یہ تحدید شرعی بالقیاس نہیں تو اور کیا ہے۔ اسی ابہام قلتین کی وجہ عاملین بحدیث قلتین کے باہمی اختلاف سے دس اقوال پیدا ہوئے ہیں۔ شافعیہ میں بہت سے لوگ اسکے قائل نہیں رہے۔ جیسے ابوداؤد وغیرہ ۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ شافعی اس سے پہلے باب الوضؤ بالمد میں فرماچکے ہیں کہ اس سے توقیت شرعی ثابت نہیں اسی طرح امام صاحب ؒ ان روایات سے تحدید مراد نہیں لیتے بلکہ سب پر عامل ہیں اور اس امر کو رائے مبتلیٰ بہ پر چھوڑتے ہیں اور حدیث کے یہ معنیٰ فرماتے ہیں کہ جب کسی نے سوال کیا اور آپ ﷺ نے اس پانی کو کثیر سمجھا عدم نجاست کا حکم فرمادیا۔ چنانچہ اختلافِ روایات مقدار اس پر شاہد ہے پس جس نے ماء فلاۃ سے سوال کیا اور آپ ﷺ نے اس کو قلتین سمجھا اس طرح جواب دیا کہ اذا بلغ الماء قلتین الخ اور جس نے أربعین قلال کا سوال کیا اس کو