ثبوت و فضیلت تغلیس کے قائل ہیں لیکن چونکہ کثرتِ جماعت ایک دوسری عارضی بڑی فضیلت اسفار میں ہے لہذا اپنے زمانہ کے مناسب اسفار کو خیال فرما کر مستحب واولیٰ کہتے ہیں اور اس میں کوئی خفا نہیں کہ کبھی عارضی فضیلت اصلی فضیلت سے بڑھ جاتی ہے۔ چونکہ یہ زمانہ تکاسل کا ہے پس بہتر ہے کہ تاخیر ہوتا کہ لوگ جماعت سے محروم نہ رہیں گو اصلی فضیلت و ذاتی خوبی تغلیس میں تھی پس صرف برعایت ارباب زمانہ اور برائے حصول ثواب للمصلین اسفار کو امام صاحب ؒ نے اولیٰ کہا ہے۔ چنانچہ حنفیہ محققین اسکی تصریح کرتے ہیں کہ اگر چند لوگ ہم سفر ہوں تو نماز صبح جس وقت چاہیں پڑھیں انکے لئے اسفار مستحب نہیں اس سے ظاہر ہے کہ اصل وہی مصلحت ہے چنانچہ حضرات شیخین نے جب دیکھا کہ لوگ صبح میں ذرا کسل کرتے ہیں تو بہ نسبت جناب رسالت مآب ﷺ کے ذرا تاخیر سے فجر پڑھتے تھے۔
باب تاخیر الظہر لشدۃ الحر
امام صاحب ؒ شدہ حر میں ابراد کو مستحب کہتے ہیں۔ امام شافعی ؒ صاحب ہر موسم میں تعجیل کو پسند فرماتے ہیں۔ باقی انکے قول پر امام ترمذی کا اعتراض درست نہیں بلکہ انکے قول کے معنیٰ سمجھنے میں دھوکہ ہوا۔ اصل مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعی ؒ ظہر میں صرف اجتماع کے لئے تاخیر کو پسند فرماتے ہیں جیسے امام صاحب ؒ صبح میں ورنہ اصل انکے یہاں وہی تعجیل ہے پس ترمذی کا حدیث سفر پیش کرنا شافعی ؒ کو مضر نہیں کیونکہ یہ کہاں سے ثابت ہوا کہ سفر میں اجتماع میں دشواری نہ تھی ۔ جنگل کا قصّہ اور وہ بھی اس جگہ جہاں سایہ کا سامان نہ ہو وہاں جس قد ر تکلیف تعجیل میں ہوگی اس قدر تو شاید شہر میں میل بھر سے آنے میں بھی نہ ہو کیونکہ پانی وغیرہ کی تلاش اس سخت دھوپ میں کرنا پھر جلتی زمین پر نماز پـڑھنا جیسا کچھ مشکل ہے محتاج بیان نہیں۔
باب تعجیل العصر
باختلاف امکنہ اور جہت و رُخِ مکان شمس کی حالت مختلف ہوتی ہے بعض مواسم میں بہت جلد مکان سے نکل جاتا ہے اور بعض ایام میں دیر میں نیز جس مکان کی دیواریں بلند ہوں اور صحن تنگ ہواس میں سے بہت جلد آفتاب نکل جائیگا اور جسکی دیواریں مختصر اور صحن وسیع ہو وہاںدیر تک رہے گا پس معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا حجرہ اسی قسم کا تھا۔ ابتدائے عصر میں امام صاحب ؒ کا دیگر تمام فقہاء سے خلاف کرنا یوں معلوم ہوتا ہے کہ بڑے مصالح پر مبنی ہے اس لئے امام صاحب ؒ سے تین روایتیں اس بارہ میں منقو ل ہیں۔ اصل یہ ہے کہ سب کے موافق اوّل امام صاحب ؒ نے بھی یہی کہا کہ ایک مثل تک ظہر اور اسکے بعد عصر۔ لیکن چونکہ انکی وسیع نظر اشارات احادیث پر پڑی جو ہرگز نظر انداز کرنے کے لائق نہ تھے جن سے ابتدائے عصر از مثلین کا پتہ چلتا تھا۔ لہذا امام صاحب ؒ نے کہا کہ اسوقت میں (یعنی بعد ازیک مثل) ظہر تو پڑھ