آپﷺسے عرض کیا۔ آپﷺنے فرمایا کہ ان سے کہو کہ ہم نے ابھی نکاح کیا اگر تم ٹھہرنے دو تو ہم یہیں بنا کریں اور اسی جگہ ولیمہ کرکے تم سب کو بھی دعوت دیں لیکن انہوں نے شومی قسمت سے نہ مان اور کہا کہ ہم کو دعوت نہیں چاہیے آپﷺتشریف لے جائیں اور یہ روایت بھی ابن عباسؓ کی ہے اس سے ظاہر ہے کہ نکاح آپﷺنے مکہ کو آتے وقت حج سے پہلے کیا تھا اور وہاں مُحرم ہونا بے شبہ ہے کیونکہ ذوالحلیفہ جو میقاتِ اہلِ مدینہ ہے وہ تو مدینہ سے تین ہی میل پر ہے آپﷺوہیں سے محرم ہوگئے ہونگے۔ سرف تو بھلا مکہ کے قریب ہے وہاں تک حلال کیسے ہوسکتے تھے۔ اسوقت آپﷺنے نکاح کیا اور بناء مکہ سے واپسی کے وقت کی وہاں کفار نے ٹھہرنے نہ دیا۔ ان قرائن سے نکاح کا قبل الحج ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اب حنفیہ کے لئے دوسری روایت میں تاویل کی گنجائش ہے ورنہ بلا مبنیٰ صحیح کے تاویل کچھ مقبول نہیں ہوتی۔ اب حنفیہ کہہ سکتے ہیں کہ وَہُوَ حَلَالٌ کے یہ معنیٰ ہیں کہ آپﷺحل میں تھے گو شوافع نے اس پر اعتراض بھی کئے ہیں کہ میمونہؓ صاحب قصّہ ہیں اور وہ خود آنحضرت ﷺ کو حلالٌ کہتی ہیں لیکن اوّل تو یہ ضروری نہیں کہ بہ نسبت دوسروں کے حضرت میمونہؓ آپﷺکے حال سے زیادہ واقف ہوں کیونکہ ایک تو نکاح کے بعد آپﷺکے پاس آئی ہیں انکو آپﷺکے پورے حال کی واقفیت کیسے ہوسکتی ہے۔ اور اگر مان بھی لیا جائے تو ممکن ہے کہ میمونہؓ نے یزید بن الاصم سے کہا ہو کہ تَزَوَّجَنی وَھُوَحَلَالٌ یعنی جب آپ نے بِنا [زفاف]کی تب آپﷺحلا ل تھے۔پھر کبھی بالفاظ صریح فرمایا کہ بَنَابِیْ وَھُوَحَلَالٌ ان کا مطلب تو ان دو لفظوں سے ایک تھا یہ اسکو علیحدہ علیحدہ سمجھے اور دونوں کو روایت کردیا اب بَنَا کے مقابلہ میں تَزَوَّجَ آکر صاف نکاح کے معنی مفہوم ہونے لگے۔ حالانکہ میمونہؓ کی مراد اس سے وطی تھی چنانچہ نکاح تو بمعنیٰ’’ وطعی‘‘ شائع ذائع ہے حتی کہ حنفیہ تو اسی کو حقیقی معنی کہتے ہیں اسی طرح تَزَوَّجَ کے معنیٰ بھی وطی کے آتے ہیں گو یہ شائع اور حقیقی معنیٰ نہ ہو۔
(اس باب میں اور بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے مگر اسی قدر کافی سمجھکر بس کیا ۔ راقم)
باب الصید للمحرم
شوافع صید لاجلہکے یہ معنی لیتے ہیں کہ اسکو کھلانے یا دینے کی نیت سے شکار کیا گیا ہو اسکی بھی ممانعت ہے مگر اس نہی وممانعت کو تنزّہ پر حمل کرتے ہیں ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ ممانعت اسکی ہے جو اسکے اشارہ یا مدد سے شکار کیا گیا ہو اور صید لأجلہ کے یہ معنی کہتے ہیں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ ابوقتادہ نے تو محرمین کو کھلانے کی نیت سے شکار کیا تھا ان کا ارادہ یہ نہ تھا کہ تمام کو خود ہضم کرجاؤں گا۔ پس اگر صید لاجلہ کے معنیٰ شوافع کے موافق لیں تو انکا شکار جائز نہ ہوگا۔ شبہ یہ ہوتا ہے کہ ابو قتادہ سب کے ساتھ تھے پھر حلال کس طرح رہ گئے تھے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ سے مکہ کو کسی ایسے راستہ سے کسی ضرورت کی