چہ اقدام نجس ہی ہوجائیں اور ممکن ہے کہ وضوء سے غسلِ رجل مراد ہو یعنی مکان نجس جو خشک ہو اس پر چل کر ہم پاؤں نہ دھوتے تھے۔
باب التیمم
تیمم میں دو خلاف ہوئے ہیں ایک تو ضربۃ میں کہ ایک ہے یا دو اور دوسرے مسح میں کہ مسح علی الکفّین والوجہ ضروری ہے یا مرفقین پر بھی مسح ضروری ہے امام اسحٰق اور بعض حضرات صرف وجوب الوجہ والکفّین کے قائل ہیں اور جمہور اور اکثر صحابہ کا مذہب مرفقین کا ہے۔ اس حدیث کو بعض نے اس طرح ضعیف کرنا چاہا ہے کہ گو اسناد میں ضعف نہ ہو لیکن چونکہ راوی خود تَیَمَّمْنَا الی الآباط فرماتے ہیں اور بعض روایات میں بجائے کفین کے نصف ذراع وارد ہے۔ پس ان معارضات سے حدیث ضعیف ہوگئی لیکن انصاف یہ ہے کہ امام اسحٰق نے جو اسکا جواب دیا بیشک درست ہے کہ پہلے انہوں نے الی الآباط کا ہوگا اور پھر جب آپ ﷺ سے عرض کیا تو آپ ﷺ نے اصلی طریقہ تیمم تعلیم فرمایا چنانچہ حضرت عمر ؓ اور ان عمار کا قصہ سفر مشہور ہے۔ پس وہ پہلا قصّہ ہے اور اب راوی تعلیم رسول ﷺ کو بیان کرتا ہے پس تیمم وجہ و کفین درست ہوگا اب حنفیہ و دیگر موافقین کو اس روایت کا جواب دینا باقی ہے وہ قطع نظر از قیاس اس طرح ہوسکتا ہے کہ حدیث جسکو راوی اَمَرَنَا سے تعبیر فرماتے ہیں قولی نہیں فعلی ہے باقی راوی کا اَمَرَنَا کہنا یہ اس لئے کہ جب آپ ﷺ نے فرمایا کہ یکفیک ھکذا۔پس یہ تو امر ہوا اور اسی کو راوی نے امر سے تعبیر کیا ہے اسکے بعد اشارہ فعلی شروع ہوا۔ چونکہ یہ سائل صاحب تیمم وضو سے واقف تھے اور شبہ صرف تیمم غسل میں تھا جیسا کہ حدیثِ تمرغ سے ظاہر ہے لہذا آپ نے وجہ وکفین کو ذرا مس کرکے اشارہ فرمایا کہ یہی تیمم غسل لے لئے بھی کافی ہے ہر ہر جزو اور علیٰحدہ علیٰحدہ ضربہ کے سمجھانے کی ضرورت نہ سمجھی۔ روایت نصف ذراع بھی شاہد ہے کہ آپ ﷺ نے صرف اشارہ فرمایا تھا کسی نے صرف مسح کف سمجھا اور کسی نے نصف ذراع تک ہاتھ آتا ہو ا دیکھا۔ یہ ظاہر ہے کہ اشارہ بسرعت ہوجاتا ہے اس میں کسی قسم کا تکلف اور دیر کرنی نہیں پڑتی۔ جب اسکو اشارہ کے لئے کہا گیا تو باقی روایات میں اور اسمیں کسی طرح تعارض نہ رہا اور روایت نصف ذراع کے معنیٰ بھی بخوبی مفہوم ہوگئے اور اصل وہی ضربتیناور مسح الی المرفقین رہا جیسا کہ دوسری روایت سے ثابت ہے اور نیز قیاس سے ، لیکن یہ سب اس پر موقوف ہے کہ حدیث کو فعلی کہا جائے چنانچہ اسکا اسلوب ذکر کیا گیا ہے اب تقریر مکرر یہ ہے کہ اوّل تو سب روایات کفین اور بکفیک ھٰکذا انکے فعلی ہونے میں دقت نہیں معلوم ہوتی اس روایت میں چونکہ اَمَرَنَا فرمایا ہے لہذا یہ ذرا مشکل ہے اور روایت ہے قوی۔ پس معلوم ہونا چاہیے کہ اَمَرَنَا سے مراد وہی قول شریعت ھٰکذایابکفیک ھٰکذا ہے اور وہ بے شبہ امر ہے۔ لیکن اسکے بعد اشارہ ہوا ہے جو صرف یاد دلانے کی غرض سے تھا اور واقف کے سمجھانے کے لئے کافی