بات نہیں۔
بابُ السُترۃ
یہاں سترہ ٔامام کو سترۂ لمن خلفہ سب نے مان لیا ہے۔ ہاں فاتحہ میں خلاف کربیٹھے مرور بین یدی المصلی کی وعید میں تعارض نہیں اس لئے کہ تحدیدمقصود نہیں بلکہ تکثیر منظور ہے، قطع صلٰوۃ بالحمار والکلب والمرأۃ کے یا تو یہ معنی ہیں کہ وہ توجہ کو قطع کردیتے ہیں انکی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ قطع توجہ جب ہوتا ہے کہ دوسری طرف توجہ ہو اور دوسری طرف توجہ بوجہ نفرت یا بوجہ رغبت ہوتی ہے پس جس قدر زیادہ مرغوب یا مبغوض شے ہوگی اسی قدر توجہ زیادہ ہوگی۔ کلب و حمار کے مبغوض ہونے کا حال ظاہر ہے اور مرأۃ کا مرغوب ہونا بھی مخفی نہیں۔ پس ان اشیاء کے ذکر سے یہی وجہ معلوم ہوتی ہے چنانچہ بعض روایات میں خنزیربھی آیا ہے پس معلوم ہوا کہ مراد قطع توجہ ہے جو مرغوب ومبغوض شے سے قطع ہوتی ہے اور بعض یہ وجہ بیان کرتے ہیں کہ اُن میں مضمون شیطانیت ہوتا ہے لہٰذا منع فرمایا۔ کلب کو تو آپ ﷺ خود ہی شیطان فرماتے ہیں ۔ حمار کے بارہ میں وارہے کہ وہ شیطان کو دیکھکر بولتا ہے معلوم ہوا کہ اسکو بھی شیطان سے مناسبت وخصوصیت ہے جیساکہ مرغ کے لئے وارد ہے کہ وہ فرشتوں کو دیکھ کر بولتا ہے باقی رہی عورت اسکوبھی حبالۃ الشیطان فریایا گیا ہے۔ غرض انکی شیطنت کی وجہ سے قطع صلٰوۃ کا حکم فرمایا گیا ہو لیکن اعتراض یہ ہے کہ شیطان کے اگر حقیقی معنیٰ بھی مراد لیں تب بھی قطع الصلٰوۃ بمرور الشیطان مسلم نہیں اور اگر مجازی معنے مراد لیں جیسے کہ بیان ہوا تو پھر بھی کسی سے اس سے قطع صلٰوۃ نہیں ہوتا ۔ آنحضرت ﷺ نے شیطان کو پکڑ لیا تھا جبکہ وہ صلٰوۃ کسوف میں شعلہ لیکر آیا۔ پھر بھی صلٰوۃ آپ ﷺ کی منقطع نہ ہوئی غرض جمہور کا مذہب ان سے قطع صلٰوۃ کا نہیں ہے کیونکہ دوسری روایت سے ثابت ہے کہ ایک مادہ خر اور کلب آپ ﷺ کے سامنے کھلاڑی کرتے رہے مگر نماز آپکی منقطع نہیں ہوئی۔ بعض اہلِ علم نے صرف کلب سے قطع صلٰوۃ کا حکم فرمایا ہے۔حدیث میں کلب اسود کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ موذی ومبغوض ہوتا ہے اس حدیث میں تصریح آگئی کہ جب مقدار مؤخر الرحل سترہ نہ ہو تو قطع صلٰوۃ ہوتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اس سے کم مقدار سترہ کافی نہیں گوپہلی حدیث سے صاف طرح سے ثابت نہ ہوتا تھا۔ حنفیہ ؒ کا یہی مذہب ہے۔ امام شافعی ؒ خط اورالقاء خشبۃ اور تھوڑی مقدار کے سترہ کو بھی کافی فرماتے ہیں۔
باب الصلوٰۃ فی ثوبٍ واحدٍ
جب دو کپڑے موجود ہوں تو پھر ایک میں پڑھنا مستحسن نہیں۔
باب ابتداء القبلۃ