ہوجائے۔ اسی طرح اس تاویل کے بعد نہ کسی روایت میں خلجان ہوتاہے نہ فعل صحابی کو ئی خلاف مذہب رہتاہے نہ کوئی روایت عمل سے چھوٹتی ہے دیگر ائمہ کایہ طرز ہے کہ قوی روایت پر عمل کرتے ہیں اور ضعیف کی تاویل وتطبیق یاترک کرتے ہیں اختلاف کے وقت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ اہل مدینہ کے فتویٰ کو اور امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ اہل مکہ کے فتوی کو راجح اور اپنا مذہب بتاتے امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ ایک کو اپنا مذہب اور دوسرے کوجائز فرمادیتے ہیں گویا اجتہاد سے کم کام لیتے ہیں۔ ہاں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کاطرز نرالا ہے کہ وہ نہ اہل کوفہ کی سنتے ہیں نہ کسی کی بلکہ تمام روایات پر غور کرنے کے بعد جو حکم سمجھ میں آتاہے اور قواعد کلیہ کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ پھر ایک دو روایت خلاف قواعد کلیہ آتی ہے اس کی تطبیق وتاویل کرتے ہیں۔الحاصل اس موقع میںخیار کو تبرع پر محمول کرنے سے ساری باتیں درست ہوجاتی ہیں لیکن یہ ایسی بات ہے کہ باوجود بہت تلاش کے کہیںنہیں دیکھی گئی البتہ فتح الباری میں ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے پہلے حنفیہ کے بہت سے دلائل کو توڑا ہے اور پھر ان کی طرف سے یہ جواب بھی دیاہے مگر اس کو احتمال بعید کہا ہے مگر تعجب ہے کہ ایسا عالم بالحدیث یوں کہے۔ شاید دیگر روایات کی طرف توجہ نہیں کی اور اگر بعید ہے تو شوافع بھی تو بہت سے مواقع میں احتمال بعید ہی کو لے لیتے ہیں۔ یا کہاجائے کہ خیار میں تشکیک ہے یعنی بیشک قبل تفرق المجلس اختیار باقی رہے گا لیکن ضعیف کہ بلارضا متعاقدثانی اس سے کام نہ چلے گا ہاں جب دوسرا متعاقد بھی راضی ہوجائے تو بیع فسخ ہوسکے گی۔ بعض صورتیں وہ ہیں جس میں کسی کو بھی خیار نہیں رہتا جیسے تفرق عن المجلس کے بعد۔ اور بعض میں دونوں کو ملکر ہوسکتا ہے ہر واحد کو نہیں جیسے یہی صورت جس پر مالم یتفرقا کو حمل کیا ہے۔ اور بعض صورتوں میں ہر واحد کو خیار رہتاہے جیسے قبل التفرق بالاقوال۔ یہ مسئلہ ایک بڑا اختلافی مسئلہ ہے طرفین کے مؤید امور موجود ہیں بہت سے شوافع نے اس پر مستقل رسالے لکھے ہیں اور امام صاحب پر اس مسئلہ میں بڑی لے دے ہوئی لیکن امام کا مطلب صاف ہے کوئی موقع گرفت نہیں۔
باب لاخلابۃ
جمہور فقہا کہتے ہیں کہ اس سے خیار نہیں ثابت ہونے کا۔ بعض نے کہا ہے کہ ان کلمات سے اس کو خیار ہوجاتاہے ورنہ اس قول سے فائدہ کیاہوگا؟ جمہو رکی طرف سے جواب دیا جاتاہے کہ یہ خاص ان صحابی کی خصوصیت ہے یہاں سے معلوم ہوگیا کہ جو جزئی قواعد کلیہ کے خلاف ہو اس کی تاویل وغیرہ کی جائے گی قواعد کلیہ میں اس کی وجہ سے رخنہ اندازی نہ کریں گے چنانچہ یہاں تخصیص کے قائل ہوئے جو سب سے گرے درجہ کا جواب ہے لیکن قواعد کلیہ کا لحاظ ضروری سمجھا گیا۔ مگر ایک روایت میں جس کو حاکم نے مستدرک میں ذکرکیا ہے یہ الفاظ ہیں فقل لا خلابۃ ولی الخیار ثلاثۃ ایام پس اس کے موافق تو تخصیص وغیرہ ماننے کی کچھ ضرورت نہیں اس میں صریح الفاظ خیار ہیں ان سے تو ثابت ہوہی جائے گا۔ یا یہ