چونکہ مجامع میں اور کثرت مرد مان میں یہ مشکل ہے اور جماعت و صفوف میں خلل آتا ہے اس لئے استقبال قبلہ ہی پر اکتفاء کیا جاتاہے ۔
باب الرکعتین عند الخطبۃ
یہ رکعتیں تحیۃ المسجد ہیں امام شافعی وغیرہ اس حدیث کی وجہ سے ان کو بوقت خطبہ جائز کہتے ہیں اور اکثر صحابہ وجمہور تابعین ممانعت کے قائل ہیں پس امام صاحب جمہور صحابہ وتابعین کے ساتھ ہیں بعض کی مخالفت ان کو مضر نہیں دوسرے امام صاحب کی موید وہ روایات کثیرہ ہیں جو ممانعت صلوۃ عند الخطبہ پر دال ہیں ۔ شوافع انکی تخصیص اس روایت سے کرتے ہیں لیکن روایت کثیرہ کا مخصص اس روایت خبر واحد کو کرنا قابل تسلیم نہیں اسلئے کثرت سے صحابہ و تابعین امام صاحب کے موافق ہی ہیں چنانچہ نووی نے بھی پہلے خود تصریح کی ہے کہ جمہور ائمہ و صحابہ اسی طرف ہیں مگر پھر لکھتے ہیں کہ ’’لیکن انکا قول صحیح نہیں ‘‘ اس قدر حضرات کے قول کو غلط اور غیر صحیح کہدینا نووی کو شایان نہیں ادھر آیات انصات میں راجح یہی دو قول ہیں کہ خطبہ میں نازل ہوئی یا خلف الامام کے بارہ میںاقوال کثیرہ میں سے یہی دو قول معتبر ہیں اور دونوں امام کے موید وموافق پھر جب روایات کثیرہ اور جمہور سلف صالحین اور آیات قرآنی امام کے ساتھ ہوں تو امام پر کیا الزام آسکتا ہے باینہمہ امام صاحب کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھی اسی روایت ذوالیدین کی طرح منسوخ ہے اور ابتداء کا قصہ ہے جب کہ خطبہ میں کلام بھی جائز تھا ۔ شوافع کے جواز عند الخطبہ کے مستدل میں حنفیہ کو صرف مخالف احتمال نکال دینا کافی ہے کہ ممکن ہے کہ یہ ابتداء کا واقعہ ہو جیسا کہ ذوالیدین کی روایت میں حنفیہ نے ابتداء ہی سے احتمال کو راجح کر دکھایا اور شافعیہ نے اسکے خلاف زور لگایا اسی طرح شوافع یہاں بھی کسی صورت سے یہ ثابت کر دیں کی یہ آخر کا قصہ ہ ہے ابتداء کا نہیں امام صاحب تو کلام فی اثناء الصلوۃ کے مانند اس کو بھی کہیں گے کہ اسی وقت کا قصہ ہے جبکہ کلام عند الخطبتین جائز تھا ابتداء میں جس طرح نماز میں کلام بلا تکلف جائز تھا ایسے ہی خطبہ میں نماز میں بھی ممانعت ہوئی اور خطبہ میں بھی چنانچہ آیات انصات کے دو ہی محل معتبر ہیں خلف الامام یا خطبہ دیکر جملہ امور کی ممانعت کو توشوافع تسلیم کرتے ہیں لیکن تحیۃ المسجد میں آکر اڑگئے کہ یہ بوقت خطبہ جائز ہے ۔ جیسا خلف الامام میں اور اشیاء کی قراۃ کو تو منسوخ مانتے تھے الحمد پر آکر جم گئے تھے اس روایت کو مستدل و معمول بہا بنا کر دیگر روایت کا خلاف کیا جیسا ذوالیدین کی روایت پر جم کر دوسرے نصوص و روایات سے اغماض کرنا پڑاتھا اور بعینہ اس روایت کی طرح اس روایت کے بعض پر عمل کرتے ہیں بعض کو چھوڑتے ہیں کیونکہ پورا قصہ اس طرح ہے کہ ایک شخص شکستہ حال بوقت خطبہ حاضر ہوا ۔ آپ کو اس پر رحم آیا۔ آپ نے منبر سے اتر کر ایک آہنی کرسی منگوائی اور صحابہ سے ارشاد فرمایا انہوں نے کچھ کپڑے لاکر جمع کئے آپ نے دو کپڑے اٹھا کر ان میں