ابواب الزکوۃ
زکوۃ الذہب والورق
چالیس درہم میں سے ایک واجب ہے بشرطیکہ مقدار دو سو تک پہنچ جائے ولا خلاف فیہ ۔ خیل تجارت میں بالا تفاق زکوۃ واجب ہے ۔ اور جو خدمت کے لئے ہو مگر علوفہ ہوں ان میں کسی کے نزدیک واجب نہیں اور جو نہ خدمت کے لئے ہوں نہ تجارت کی نیت ہو ان میں عند الامام واجب ہے ۔ زکوۃ ابل و غنم غیر معقول ہے ولا خلاف فیہ ۔ جمع و تفریق عند الامام من حیث الملک مراد ہے یعنی مالک کو نہ چاہیے کہ صدقہ کے اسقاط کے حیلہ کرنے کو دو شخص مال ملا لیں تاکہ کم واجب ہو یا ایک شخص اپنا مال دو جگہ کر لے جس سے نصاب سے کمی ہو جائے اور کسی پر واجب نہ ہو امام شافعی جمع و تفریق من حیث المرعی کہتے ہیں مگر اس میں خرابی یہ ہے کہ بلا کمال نصاب ہی بعض صورتوں میں زکوۃ واجب ہو جائیگی ، مثلا دو شخصوں کی چالیس بکریاں اگر ایک مرعی میں ہوں تو ان پر زکوۃ آجائیگی حالانکہ کوئی بھی ان میں سے نصاب کا مالک نہیں اور اگر انتالیس انتالیس بکریاںایک شخص کی اس جگہ چرائی جائیں جن کا مجموعہ تین سو نوے ہے تو صدقہ واجب نہ ہوگا حالانکہ تین سو نوے کا مالک ہے ۔ وماکان من الخلیطین یراجع بالسویہ میں ظاہر معنی یہ ہیں جنکو شافعی لیتے ہیں کہ اگر مشترکہ میں سے وہ صدقہ دیا گیا جو پورے عدد پر واجب ہے مثلا اکسٹھ میںسے جذعہ دیا جائے تو شریکین تراجع بالسویہ کرلیں مثلا اگر اکسٹھ میں سے پچیس کا مالک ایک ہے اور چھتیس دوسرے شخص کے ہیں اور جذع کی قیمت مثلا ساڑھے تیس روپیہ تھی تو چھتیس کا مالک اٹھارہ روپے دے گا اور پچیس والابارہ روپے آٹھ آنہ ۔غرض اس صورت میں یہ نہ ہوگا کہ پچیس پر بہ نیت مخاض اور چھتیس پر بہ بنت لبون دیا جائے بلکہ پورے اکسٹھ میں جوواجب تھا وہ دیا جائے اور قیمت حصہ رسد ہر دو شریک ادا کریں ۔ ذرا خفی معنی یہ ہیں جو ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ دو شریک جو پچیس و چھتیس کے مالک ہیں ایک بہ بنت مخاض اور ایک بہ بنت لبون ادا کریں اور یہ دونوں صدقے گویا کل اکسٹھ میں سے گئے اب پچیس کا مالک دوسرے سے کہے کہ میں نے بہ بنت مخاض دیا لیکن اسکی قیمت کے اکسٹھ حصے کر کے چھتیس تو دے اور پچیس میں دیتا ہوں کیونکہ باسٹھ تیری طرف سے گئے اور پچیس میری طرف سے اور چھتیس والا کہے کہ جو بہ نیت لبون میری طرف سے ادا ہوا ہے اس میں سے منجملہ اکسٹھ