ہے۔
باب الوضوء مما غیرت النار
اکثر اہل علم عدم وجوب وضوء مما مست النار کے قائل ہیں اس حدیث کو بعض نے منسوخ ٹھہرایا ہے اور دوسری حدیث کو ناسخ ۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ اس طرح تطبیق کی جائے کہ اس حدیث میں وضوء سے وضوء لغوی مراد ہے یعنی مضمضہ چنانچہ روایت سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے دودھ نوش فرما کر مضمضہ کیا اور فرمایا کہ ھٰذا وضوء مما مست الناراس سے صاف معنی سمجھ میں آتے ہیں۔یا استحباب پر حمل کیا جائے اور محققین کے نزدیک معنیٰ یہ ہیں کہ وضوء وطہارت میں فرق ہے اکل ما غیرتہ النار سے طہارت باطل نہیں ہوتی البتہ وضوء جو مشتق من الوضاء ۃ ہے وہ باقی نہیں رہے گا۔ پس بوجہ بقاء طہارت نماز ہوجائے گی اور بوجہ زوال وضاء ت آپ ﷺ نے حصول وضاء ت کے لئے وضوء کا امر فرمایا اور زوال وضاء ت کی وجہ یہ ہے کہ غفلت من ذکر اللہ اور شغل فی الدنیا اگرچہ اپنی ضروریات کے لئے جائز ہے لیکن بہتر نہیں۔ پس یہ شخص جو اس ماغیرت النارکے اہتمام میں مصروف رہا بہتر نہ ہوا احسن یہی تھا کہ مصنوعات الٰہی سے قُوت لایموت حاصل کرتا پس وضاء ت جاتی رہ گئی۔
باب الوضوء من لحم الابل
اس میں بھی اکثر تو عدم وجوب وضوء کے قائل ہیں لیکن امام مالک ؒ وغیرہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ گو دیگرمامست النارسے وضوء واجب ہو لیکن لحوم ابل سے ضرور واجب ہے کیونکہ اس میں دسومت زیادہ ہوتی ہے اور عدم قائلین بالوجوب وہی لغوی وضوء مراد لیتے ہیں یعنی اس حدیث سے صرف اتنا ثابت ہوا کہ لحوم ابل سے وضوء لغوی ذرا زیادہ بہترومستحب ہے لحم غنم کھانے کی وجہ سے اس قدر مستحب نہیں البتہ فرض یا واجب کی وجہ سے بھی نہیں یا یہاں بھی محض استحباب پر حمل ہو۔
باب مس الذکر
مذہب شافعہ وجوب وضوء من مس الذکر ہے اور اکثر ائمہ اسکے قائل نہیں پس اس حدیث کو یا تو منسوخ کہاجائے اور ناسخ یہ آئندہ حدیث ہے یا حدیث ثانی کو ترجیح دیجائے کیونکہ قیاس اسکا مؤید ہے اور یہ عام قاعدہ ہے کہ عند تعارض ا لأیتین حدیث سے ایک کو ترجیح دیتے ہیں اور بوقت تعارض احادیث قیاس سے کسی کو ترجیح دیتے ہیں پس یہاں وہی ثانی حدیث مرجح رہے گی گو باعتبار اسناد کے حدیث اول اس سے قوی ہے یا مس ذکر سے وضو کو مستحب مانا جائے پس حدیث محمول علی الاستحباب ہوگی۔ اور مستحب ہونے میں کسی کو کلام نہیں اور ہوسکتا ہے کہ مس ذکر سے مراد استنجا ہو۔ چنانچہ ترمذی اس