ہونے سے وہ بالکل مجہول ہوجائیں۔
باب سور الکلب
امام صاحب ؒ کی یہ رائے ہے کہ تین بار دھو ڈالنا کافی ہے کیونکہ مقصود ازالہ نجاست ہے باقی حدیث وروایات کا مطلب علماء حنفیہ دو طرح بیان کرتے ہیں ایک یہ کہ نظافت ونفاست کے واسطے فرمایاہے تحدید منظور نہیں ہے وجہ دوسری روایات کا جن میں آٹھہ دفعہ دھونا فرمایا گیا ہے چھوڑنا لازم آئے گا۔ پس مناسب یہ ہے کہ استحباب ونفاست کے لئے قرار دیا جائے۔ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمادیا کہ سات دفعہ دھو ڈالو کبھی زیادہ صفائی کے لئے فرمایا کہ اوّل مرتبہ مٹی سے مَل ڈالو اور سات دفعہ دھونا چاہیے کبھی اٰخرھن بالتراب فرمایا۔ غرض سب سینفاست ہے اس صور ت میں روایات میںتعارض نہ ہوا۔ اور سب پر عمل ممکن ہوا کیونکہ تحدید شرعی مقصود نہیں ہے بلکہ سات آٹھ دفعہ دھونا ثابت اور کم زیادہ کی نفی نہیں۔ ہاں امام شافعی ؒ اور انکے متبعین کو بعض روایات کو چھوڑنا پڑا یعنی جب سبع مرات پر عمل ہو ا تو ثمانیہ کی روایت کو چھوڑنا پڑا۔ اسکا جواب بعض نے دیا ہے کہ ایک دفعہ مٹی ملنے کو بھی غسل شمار کرکے مجموعہ کو ثمانیہ فرمادیا۔ لیکن ظاہر ہے کہ مٹی ملنے کو غسل اور دھونا نہیں کہتے۔ نیزاٰخرھن بالتراب وغیرہ روایات پر عمل نہ ہوسکے گا۔ امام صاحب ؒ نے ایک جگہ قیاس گیا کہ ازالہ نجاست مثل دوسری اشیاء کے یہاں بھی دو تین دفعہ سے ممکن ہے لیکن اس قیاس کی بدولت سب احادیث پر عمل ممکن ہوگیا۔ بخلاف دیگر حضرات کے کہ ایک پر عمل اور باقی متروک ۔ حنفیہ صرف منطور حدیث کو لیتے ہیں۔ اس قید زائد کو نہیں لیتے کہ یہ غسل لزومًا ووجوبًا ہے اور سیدھی بات ہے۔ دوسرا طرز یہ ہے کہ حدیث کو منسوخ مانا جائے کہ ابتدائے اسلام میں چونکہ کلاب سے ملابست وملاعبت زیادہ تھی اسلئے ازدیاد نفرت کے لئے اس قد مبالغہ فرمایا گیا۔ کماھو شان النسخ اور یہ آسان طرز ہے بالجملہ اس حدیث سے یہ تو معلوم ہوگیا کہ ماء قلیل وقوع نجاست سے ناپاک ہوجاتا ہے شوافع کا تو یہی مذہب ہے، البتہ امام مالک ؒ جو تغیر لون کی قید کو نجاست کے لئے ضروری کہتے ہیں جواب کے لئے مضطرب ہونگے۔ پس ان سے یہ مروی ہے کہ پانی بھی اور ظرف بھی پاک ہے لیکن غسل سبع مرات امر تعبدی و ضروری ہے اوّل تو یہ بعید معلوم ہوتا ہے دوسرے جس روایت میں آیا ہے کہ طھورھا غسل سبع مرات اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ نجس ضرور تھا جس کا طریقہ طہور تعلیم کیا گیا۔ اور بڑی وجہ حدیث سبع مرات کو قابل وجوب وتحدید نہ سمجھنے کی یہ ہے کہ سند صحیح سے ثابت ہے کہ ابوہریر ہؓ (۱) نے ولوغ کلب کے بعد ظرف کو تین مربتہ دھو کر پا ک کیا اور بلا ترتیب کے۔ پس اسی سے صاف ظاہر ہے کہ امام صاحب ؒ اور ابوہریرہ ؓ بالکل ایک ہی معنیٰ سمجھے کہ وہاں امر استحابی اور نظافت ہے باقی ازالہ نجاست کا جو اصل قاعدہ ہے وہ سب جگہ رائج ونافذ ہے ۔ خود راوی حدیث کا خلاف روایت عمل کرنا اور یہی فتویٰ دینا اسی معنیٰ استحبابی