اختلاف طریق فی الرجوع والخروج مستحب ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیا کرتے تھے آپ کے اس فعل میں متعدد احتمال ہو سکتے ہیں یا تو آپ کو دو طرف کے اہل محلہ کو خوش کرنا مقصود ہوتا کہ دونوں کو برکت حاصل ہو جائے یا عدم تعیین طریق تاکہ مفسدوں کو موقع فساد کا نہ ملے وغیر ذالک من الاحتمالات اکل قبل صلوۃ الفطر و بعد الاضحی مستحب ہے اضحی میں صاحب اضحیہ میں سے ہی کھائے تو مستحب وا ولی ہے ۔
ابواب السفر
مذہب مشہور شافعیہ کا یہ ہے کہ اتمام عزیمت اور قصر رخصت ہے ۔ احادیث جس قدر اس باب میں وارد ہیں ان میں دو ہی رکعتیں پڑھنا ثابت ہے ایک روایت سے بھی تو آپ کا اتمام ثابت نہیں ہوتا ، چنانچہ عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ اور حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہم سب سے ساتھ حج کئے لیکن سب قصر ہی پڑھتے تھے اور حضرت عثمان بھی چھ یا آ ٹھ سال تک قصر ہی پڑھتے رہے ۔ شوافع نے سب روایات کو چھوڑ کر حضرت عائشہ کے فعل اور حضرت عثمان کے اتمام سے استدلال کیاہے اب دیکھنا چاہیے کہ مستدل کس قدر کہاں تک قابل اعتبار ہیں حضرت عثمان ہمیشہ قصر کرتے رہے ایک دفعہ اتمام کیا تو صحابہ نے کس قدر اعتراض کئے اور چارطرف سے لے دے ہوئی ۔ شوافع نے ان کے فعل کو دیکھا مگر صحابہ کے اعتراض پر خیال نہ کیا ۔ ان اعتراضات کا جواب کسی کو تو حضرت عثمان نے یہ دیا کہ یہاں میں نے نکاح کر لیاہے اور کسی سے یہ کہا کہ میں چونکہ خلیفۃ المسلمین ہوں تمام مسلمانوں کا مسکن میرا مسکن ہے کسی کے جواب میں فرمایا کہ اعراب میرے ساتھ تھے اگر دو رکعت پڑھتا تو وہ اسی کو اصل سمجھ لیتے ۔ غرض یہ کسی نے نہ فرمایا کہ میں نے عزیمت پر عمل کیا ہے بلکہ دفع الوقتی اور ٹالنے کے طور پر مختلف جواب دیتے رہے دوسری حجت حضرت عائشہ کا فعل ہے مگر وہ بھی اس قسم کے جواب فرماتی ہیں جس سے معلوم ہوتاہے کہ ان حضرات کا مسلک شوافع کے موافق نہ تھا ۔
باب کم تقصر
اس بارہ میں مختلف روایات ہیں جمہور میں سب سے زیادہ مدت قصر حنفیہ کی ہے باقی کوئی تیرہ کوئی صرف چار دن کا قائل ہے ۔ جمہور سے علیحدہ اما م اسحق انیس روز فرماتے ہیں ہم اس کو عدم نیت اقامت پر حمل کریں گے ۔
باب التطوع
اس میں ہر دو قسم کی روایات ہیں ابن عمر بھی سفر میں نوافل پڑھنا بیان کرتے ہیں اور نہ پڑھنے کو بھی وہی روایت کرتے ہیں اچھی تطبیق یہ ہے کہ جب ظہر طریق اور حالت سیر میں ہو اس وقت نہ پڑھے اور قیام و نزول منزل کے وقت پڑھ لے