حالانکہ ہمارا قرض ہزارروپیہ ہے مگر صرف تشبیہ فی الاداء والکیفیہ مراد ہے۔ صلوۃ علی ابراہیم دوسری روایت میں وارد ہے۔ درود کو امام شافعی صاحب نماز میں فرض فرماتے ہیں بعض صرف عمر بھر میں ایک دفعہ فرض کہتے ہیں ۔
ابواب الجمعہ
خروج ادم من الجنہ کو بھی نعمت شمار کیا کیونکہ وہ بہت سے مصالح کا توطیہ تھا یا یہ کہ آپ صرف امور عظیمہ کو بیان فرمارہے ہیںکہ ایسا معظم دن ہے کہ اس قدر امور عظام اس میں ظہور پزیر ہوئے ۔ وقوع قیامت و حساب کتاب منجملہ نعماء کے ہے گو بعض کو بوجہ اپنے اعمال بد کے سزا بھی اسی روز دیجائیگی مگر وہ دن کا قصور نہیں اپنے اعمال کا قصور ہے ساعت جمعہ کے بارہ میں معتبر دو ہی قول ہیں ۔ بعد العصر الی آخر النہار یا بعد الزوال کما فی الحدیث اور تحقیقی بات یہ ہے کہ یہ ساعت بھی مثل شب قدر کے دائر سائر ہے ۔ پس آپ ﷺ نے اسکے اوقات محتمل بیان فرمادیئے تعیین نہیں فرمائی مواقع و مظنات بتلادیئے کہ یہاں بھی ہوتی ہے اور اس جگہ بھی ہوتی ہے کھبی کسی وقت اور کھبی کسی وقت ۔
غسل جمعہ :
کو بعض نے واجب کہا ہے بوجہ ظاہر الفاظ واردہ فی ہذاالباب کے ۔ جمہور کے نزدیک مسنون ہے ۔ اس خطبۂ عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے معلوم ہو گیا کہ واجب نہیں ۔ چنانچہ ترمذی خود بیان کرتے ہیں ۔ اور دوسری روایات بھی موید جمہور ہیں ۔ رجل سے مراد عثمان رضی اللہ عنہ ہیں ۔ کما سیجی ۔ اغتسل خود غسل کیا اور غسل زوجہ کو غسل کرادیا ۔ یا صرف مبالغہ و تاکید ہو یا سر کو دھونا مراد ہے کما قال ابن المبارک ابتکر خود گیا اور بکر دوسروں کو لے گیا ۔اور تداعی کی ۔ یا بطور سابق مبالغہ و تاکید مراد ہو فالغسل افضل اس تمام حدیث سے غسل کا مفضل ہونا اور وضوء کا بھی کافی ہونا ثابت ہوا اور معلوم ہو گیا کہ غسل واجب نہیں ۔ تبکیر کا جو ثواب فرمایا گیا ہے اسمیں دو قول ہیں ایک یہ کہ ساعات ثواب مودودہ بعدالزوال کے بعد سے خطبہ شروع ہونے تک جس قدر فاصلہ ہو اسکے مساوی حصے کر کے جز اول میں بدنہ ثانی میں بقرۃ ثالث میں شاۃ رابع میں دجاجہ خامس میں بیضہ کا ثواب ہوگا مثلا اول سے شروع خطبہ تک ایک گھنٹہ تھا ۔ پس اسکے اجزاء اور حصوں میں بہ ترتیب ثواب ملتارہے گا یعنی اول کے بارہ منٹ میں بدنہ دوسرے بارہ منٹ میں ثواب بقرہ۔ تیسرے منٹ میں کبش ۔ چوتھے میں دجاجہ ۔پانچویں بارہ منٹ کے عرصہ میں یعنی آخری حصہ میں بیضہ کا ثواب ۔ علی ہذا القیاس اگر زوال و خطبہ کے مابین زائد یا کم عرصہ ہو تو وقت کے حصے اسی حساب سے کئے جائیں گے ۔ مثلا آدھ گھنٹہ کا فاصلہ ہو تو چھ چھ منٹ کے حصے ۔ پس اس صورت میںساعات سے مراد لحظات ہونگے نہ کہ عرفی ساعات ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ساعات بالثواب صبح