کی مجلس نے تو مان لیا مگر شوافع اب تک نہیں مانتے اور کچھ نہ ہوسکا تو ابو قلابہ ہی پر برس پڑھے۔ لیکن یہ اعتراض صرف ان پر نہیں بلکہ عمر بن عبدالعزیز اور ان کی مجلس کے سب علماء پر اعتراض ہے۔
باب ادراؤا الحدود
درء الحدود میں سب کو اتفاق ہے جزئیات میں آکر اختلاف ہوجاتاہے۔ حکم ستر علی المسلم سے سمجھا جاتاہے کہ مقصود بالحدود قطع فساد اور زجروسدباب کبائر ہے ورنہ حکم ستر کیوں دیاجاتا بلکہ اگر مقصود اس سے کفارہ کبائر ہوتا تو اور اظہار کاحکم کیاجاتا نہ کہ ستر کا۔ اخفا کا پسندیدہ ہونا وغیرہ اشارات اس پر دال ہیںکہ مقصود زجروسدباب ہے گو تبعا رفع اثم بھی لازم آجائے۔ اپنے نفس تک کے لئے تستر کاحکم ہے چنانچہ ایک مقر بالزنا کو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیوں اپنے نفس کی پردہ پوشی نہ کی حضرت ماعز سے اعراض فرمانا وغیرہ یہ سب قرائن ایسے ہیں جن سے بلا کسی دوسری دلیل کے حدودکا زاجر ہوناثابت ہے گو دیگر روایات بھی مستدل امام ہیں۔ شارع کو پسندیہ ہے کہ سیئہ کا ذکر تک نہ ہوتا کہ دوسروں کو رغبت وحرص نہ ہوکیونکہ معاصی کے شائع ذائع ہونے کے بعد انکی برائی دل میںنہیں رہتی جیسے فی زماننا رشوت۔لہٰذا شارع نے بہتر سمجھا کہ جہاں تک ہوظاہر نہ ہونے پاوے اس لئے زانی کے لئے تغریب کردیتے تھے کہ دوسروںکو مذکر نہ ہوجائے نہ کوئی اس کو دیکھے گا نہ اس کا معاملہ دل میں یاد آکر فساد ہوگا۔اور جب ظاہرہوجائے تو سخت سزادیجائے کہ دوسروں کو تنبیہ اور آگے کو سد باب ہوجائے ضعیف سے ضعیف احتمال کو بھی رجوع عن القرائن سمجھنا جیسے حضرت ماعز کے فرار پر ھلا ترکتموہ فرمایا گیا اور اقرار کے لئے چار مرتبہ کا اقرار وغیرہ ضروری ہونا سب اس پر دال ہیں کہ مقصود چشم پوشی اورحدود وزاجر ہیں۔ امام صاحب اشارات سے ایک دور کی بات سمجھتے ہیں جو تمام قرائن کے بعد تصریح سے زیادہ ہوجاتے ہیں۔
باب التلقین فی الحد
بعض روایات سے خود ماعز اسلمی کا اقرار اور بعض سے آپ ﷺ کا سوال کرنا معلوم ہوتاہے مگر ابن عباس کی اس روایت نے شک دور کردیا کہ اول آپ ﷺ نے دریافت فرمایا۔ آپ ﷺ کو امید نہ تھی کہ وہ اقرار کرلیںگے۔ جب وہ اقرار کرنے لگے آپ ﷺ نے اعراض کیا اور پھر چار اقرار وغیرہ کے بعد رجم کا حکم دیا پس یہ معلوم ہوگیا کہ آپ ﷺ کے اعراض سے یہ سمجھنا غلط ہے کہ آپ ﷺ کو علم نہ تھا بلکہ علم تھا اور چاہتے تھے کہ یہ انکار کردیں تو میں لوگوں کو ان کی طرف سے مطمئن کردوں کہ ان کی طرف سے ایسی نسبت نہ کریں مگر وہ خلاف امید مقر ہوگئے اب آپ ﷺ نے اعراض فرماکر دفع کرنا چاہا مگر دفعیہ نہ ہوسکا۔ اقرار زنا میں امام صاحب چار مرتبہ کو ضروری فرماتے ہیں اور اسی قصہ سے