بہتر یہ ہے کہ نہ کرے مگر زیادہ وسواسی بھی نہ بن جائے۔ ابن سیرین ؒ کا قول معارض حدیث نہیں کیونکہ وہ معنیٰ حدیث کے بیان کرتے ہیں حاصل انکے قول کا یہ ہے کہ وسواسی کو مغتسل میں پیشاب نہ کرنا چاہیے۔ لیکن جو ایسے نہ ہوں انکو جائز ہے کیونکہ لا اَثَرَ للبول فی الوسوسۃ لان اللّٰہ لا شریک لہ فی الخلق والامر۔
باب السِّواک
فی الحقیقت کوئی اختلاف مابین الامامین نہیں حنفیہ اگر مسواک کو سنتِ وضوء کہتے ہیں تو مطلب یہ کہ سنت ضروریہ عند الوضو ہے باقی عند الصلٰوۃ کو بھی وہ منع نہیں کرتے ۔ جیسے بعد الطعام والنوم ۔ اور شافعیہ بھی تارک عند الصلٰوۃ کو بُرا نہیں سمجھتے جیسا کہ تارک عند النوم کی مذمت نہیں کرتے۔ بخلاف تارک عند الوضوء کے ۔ باقی یہ جواب کہ خطرۂ خروج دم ہے یہ تام نہیں کیونکہ عند الصلٰوۃ اس قدر زور سے مسواک کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ الغرض اصل وہی ہے جو عام صحابہ کرتے تھے یعنی عند الوضوء۔ باقی فعل صحابی وہ کوئی حجت نہیں۔
باب اذا استیقظ احدکم
اس حدیث سے اتنا ضرور معلوم ہوگیا کہ نجاست قلیل بھی مفسد ماء ہے کیونکہ اگر مفسد نہ ہوتی تو کس خوف سے اتنے اکابرادخال ید بعد النوم کو منع کررہے ہیں کیونکہ ظاہر ہے کہ ہاتھ کو کثیر المقدار نجاست لگ کر غیر معلوم نہیں رہ سکتی۔پس اتنے اکابر فساد ماء بوقوع النجاسۃ بلا تغیرالاوصاف کے قائل ہیں۔
باب المضمضۃ والاستنشاق
جوازِ من کفٍ واحدٍمیں کسی کو کلام نہیں۔ اولیٰ غیر اولیٰ میں خلاف ہے لیکن یہ یاد رہے کہ من کفٍ واحدٍ میں تقدم استنشاق علی المضمضۃ لازم آتا ہے کیونکہ جب ایک مضمضہ کے بعد استنشاق کرے گا تو باوجود یکہ ابھی دومرتبہ مضمضہ باقی ہے استنشاق شروع ہوجائے گا۔
باب مسح الرأس
فرض سب کے نزدیک ہے البتہ مقدار فرض میں اختلاف ہے امام صاحب ربع راس کو فرض فرماتے ہیں کیونکہ آیت مجمل تھی۔ حدیث مغیرہ ؓ سے ربع راس معلوم ہوگیا۔ مالک ؒ و احمد ؒ جملہ راس کا مسح فرماتے ہیں۔ امام شافعی ؒ مایطلق علیہ اسم المسحکو فرماتے ہیں وھو شعرۃ او شعرتینامام شافعی ؒ تثلیثِ مسح کے قائل ہیں۔ اور ائمہ ثلٰثہ نہیں۔ شافعی مائِ جدید کو بھی ضروری کہتے ہیں۔ امام صاحب ضرورت کے قائل نہیں کیونکہ آپ سے دونوں طرح ثابت ہوا ہے البتہ بہتر جدید ہے۔ ماء