کو ہو تو مقتدی پانچ کہہ لے۔
باب الفاتحۃ
فاتحہ کو حنفیہ بنیت دُعا و ثنا جائز کہتے ہیں ۔بنیت قرأت نہ پڑھنا چاہیے۔ آپﷺیا صحابہؓ بنیت ثناودُعا پڑھتے ہونگے۔ نماز جنازہ عند المجہور بہ وقت عین استواء وعین طلوع و غروب مکروہ ہے اسی طرح ادخال فی اللحد ۔ صلٰوۃ علی الطفل کی روایت میں راکب کو خلف جنازہ رہنے کا حکم ہے اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ حمل جنازہ کا ارادہ رکھنے والے نہ ہو ں وہ پیچھے رہیں کیونکہ راکب بھی ارادہ حمل نہیں کرتا۔
باب صلٰوۃ فی المسجد
باوجود حضرت عائشہ ؓ کے فرمانے کے سب نے انکار کیا اس سے معلوم ہوا کہ اگر آپﷺنے کبھی پڑھی بھی ہوگی تو بعد کو وہی معمول بہا ہوگیا ہوگا جس پر صحابہؓ جمے ہوتے تھے قال الاستاذ العلام میرے نزدیک واللہ اعلم اگر جنازہ بھی داخل مسجد ہو تو کراہت تحریمی ہے اور اگر جنازہ خارج مسجد اور مصلی مسجد میں ہو ں تو کراہت تنزیہی ہے ۔ مولوی عبدالحی صاحب نے ضرورت میں جواز کا فتویٰ دیا ہے لیکن حنفیہ کو کیا ضرورت ہے کہ مقلد بنا کریں۔
باب قیام الامام
اکثر ائمہ اور امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ صدر کے محاذات و مقابل میں کھڑا ہونا چاہیئے۔خواہ مردکا جنازہ ہو یا عورت کا۔ اس حدیث میں اگر وَسْط (بسکون سین جس کے معنیٰ درمیان کے ہیں خواہ حقیقی درمیان ہویا نہ ہو) کی روایت لیں تو کوئی مشکل بھی نہیں سرے سے قدم تک درمیان میں سب وسط ہے اور اگر وَسَطَ کی روایت لیں (بفتح السین جس کے معنے حقیقی درمیان اور نصفا نصف کے ہیں) تو یہ فرمانا انکا تخمینہ اور اندازہ سے ہوگا کیونکہ جناز ہ پر جب کہ چادر وغیرہ پڑی ہوئی ہو ٹھیک وسط متعیّن کرنا مشکل ہے پس اندازہ میں کمی زیادتی ہوسکتی ہے۔ حضرت انس ؓ کے فعل دربارۂ قیام علی الجنازہ کو اگر ظاہر پر رکھیں تب یہ کہنا ہوگا کہ انہوں نے بوجہ ضرورت کے ایسا کیا کیونکہ اس جنازہ پر گہوارہ وغیرہ نہ تھا انہوں نے سمجھا کہ جس قدر تستّر ہوجائے وہی بہتر ہے لہٰذا صدر کے مقابل کھڑے ہوئے۔
باب الصلٰوۃ علی الشھید
ترک صلوٰۃ کی روایتیں شوافع کی مستد ل ہیں بعض روایت سے صلٰوۃ ثابت ہے پس بصورت تعارض اوّل تو بہ نسبت نافی کے قول مثبت اولیٰ ہوتا ہے دوسرے قیاس سے بھی روایات صلوٰ کو ترجیح ہوتی ہے بخاری وغیرہ کی بعض روایات سے معلوم ہوتا