یعنی تم کیوں خواہ مخواہ سوال کرتے ہو۔ اگر اب میں نعم کہہ دوں تو تم کو ماننا پڑے اور فرض ہوجائے اور دقت میں پڑو۔ یہ امر علیحدہ رہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلاحکم خداوندی فرمانہیں سکتے تھے۔
باب کم حج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم
قبل الہجرت جوحج کئے وہ فرض نہ تھے ہجرت کے بعد فرض ہوئے اور اداء میں بعض وجوہ سے تاخیر ہوگئی، حتی کہ وفات سے تین ماہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج ادا فرمایا یہ حج فرض تھا وجاء علی ببقیتہا یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو یمن میں تھے انہوں نے اپنے ساتھ بقیہ بدنہ لاکر عدد مائۃ کوپور ا کردیا۔ بقیہ سے مراد بقیہ مائۃ ہے۔ جس نے حجۃ واحدۃ کہا اس نے حج فرض یا حج بعدالہجرت مراد لیاہے چار عمرہ مع حدیبیہ کے ہوتے ہیں۔ حدیبیہ میں بھی بعض افعال عمرہ مثل حلق وذبح پائے گئے تھے اور طواف وسعی نہ ہوا تھا لہٰذا بعض نے اس کو شمار کیا۔ بعض نے اس کو خیال نہ کیا اور شمار سے چھوڑدیا۔
باب متی احرم
روایات اس میںمختلف ہیں۔ جمع بین الروایات اس طرح ہے کہ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں بھی تلبیہ کہا اور ناقہ پر بھی اور بیداء میں بھی۔ لیکن جب مسجد میں تلبیہ کہا تو مسجد چونکہ تنگ تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہزارہا آدمیوں کا مجمع تھا تو ظاہر ہے کہ بعض مخصوص لوگ وہاں موجود ہوں گے سب تو وہاں ہونہیں سکتے تھے انہوں نے سنا اور اسی طرح روایت کیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناقہ پر سوار ہوئے اور وہ کھڑی ہوئی تو آپ ذرا بلند ہوگئے اور تلبیہ پڑھا تو اکثر لوگوں نے سنا اور سمجھے کہ احرام یہاں سے شروع ہوا۔ جب آگے چل کر بیداء میں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلبیہ کہا تو اب تمام مجمع نے سنا اور سمجھے کہ اب احرام شروع ہوا اور اسی کو روایت کیا چنانچہ ابوداؤد نے اس تفصیل کو روایت کیا ہے اور یہی قرین قیاس ہے مجمع کثیر تھا اس میں ایسا ہوجاتاہے امام صاحب اولیٰ اس کو کہتے ہیں کہ بعد رکعتی الاحرام سے تلبیہ شروع ہو۔
باب الافراد وغیرہ
شوافع افراد کو افضل کہتے ہیں پھر تمتع پھر قران کو حنفیہ بالکل عکس کرتے ہیں یعنی افضل قران پر تمتع پھر افراد۔امام مالک تمتع کو افضل کہتے ہیں اصل خلاف اس میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاحج کس قسم کا تھا۔ قران یا تمتع یا افراد۔ اس پرافضلیت کاخلاف مبنی ہے ایک ہی حج کا واقعہ ہے اور کثرت سے روایات اس بارہ میںآتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قارن تھے۔ چنانچہ شوافع میں سے محققین جیسے نووی اور ابن حجر اور علمائے محدثین اکثر یہی کہتے ہیں کہ روایات پر