سے کم میں کرے تو بعض علماء نے اسکو پسند فرمایا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اگر مال کثیر ہو کہ ثلث کی وصیت کے بعدبھی بہت کچھ باقی رہ کر ورثہ کو مل جائے گا تو ثلث میں کرلے ورنہ ثلث سے کم میں تاکہ ورثہ کی رعایت ہوجائے اور وہ بخوبی گذارہ کرسکیں۔ تلقین میت علی القبر بھی جائز ہے مگر اکثر علماء تلقینِ وقت استحضار مراد لیتے ہیں المومن یموت بعرق الجبین خجالت سے کنایہ ہے یعنی معاصی کی خجالت کے ساتھ مرتا ہے یا یہ دنیا کے شدائد و مصائب اٹھا کر دنیا سے جاتا ہے۔
باب النعی والنوحہ
اقربا واعزا کے مطلع کرنے کے لئے اشتہارو اعلام جائز ہے بلکہ بہتر یہی ہے تاکہ جنازہ پر مجمع زیادہ ہو اورتجہیز وتکفین میں لوگ مدد کریں اور مومن کی شان کے لائق یہی ہے کہ جماعت زیادہ ہو۔ صحابیؓ نے جو منع فرمایا تو زیادہ احتیاط کی وجہ سے مطلقًا خبر کرنے سے منع فرمایا۔ انکے لاتؤذنوابی فرمانے سے وہی نعی جاہلیت مراد ہو جو ممنوع فی الشرع ہے اور صرف اظہار تأسف وفخر وتکبر کے لئے ہوتی ہے پس مصلحت وضرورت کے لئے ہو تو منع نہیں ہے۔
باب غسل المیت
یہاں امام شافعی بھی کہتے ہیں کہ آپﷺکے فرمانے سے تحدید مراد نہیں بلکہ صفائی و طہارت مقصود ہے تین دفعہ سے کم اچھا نہیں ماء خالص بھی کافی ہے غسل میت وجنب میں فرق اتنا ہے کہ جنبی میں صرف طہارت مقصود ہوتی ہے انقاء مطلوب نہیں ہوتا اور میت میں طہارت وصفائی ہر دو مقصود ہیں۔اس لئے ماء سدر کا حکم ہے اور کرّا ت ومرّات ہونے کو فرمایا گیا ہے۔ جنب میں بھی زیادہ تحدید وحصر نہیں کہ تین مرتبہ سے بالکل لایزید ولا ینقص۔ حقوۃ۔ یعنی اپنا تہبند یا وہ کپڑا جو تہبند کے اوپر باندھ لیا جاتا ہے۔ وضفونا شعرھا الخ روایت میں اسکے بعد ومشطناہا ہے ۔ پس یہ تینوں جملے امام صاحب کے مخالف ہیں کیونکہ ان کے نزدیک نہ تسریح ہے نہ تین ضفیرہ بلکہ دو ضفیرہ (بلکہ محض دو حصے کیونکہ ضفیرہ گوندھنے سے ہوتا ہے اور امام صاحب گوندھنے کو نہیں فرماتے) اور نہ خلف ظہر ڈالتے ہیں بلکہ فوق الصدر ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ یہ روایت بلا شبہ نہایت صحیح و قوی ہے لیکن یہ کہیں سے ثابت نہیں کہ یہ امور آپﷺکے امر و اطلاع سے ہوئے پس یہ صحابیاتؓکا فعل ہوا۔ اب اگر اسکے خلاف ثبوت ہوجاوے تو وہ اولیٰ بالعمل ہوگا۔ دیکھئے حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ لم تنصون ناصیۃ۔ یعنی کیوں اسکے بال کھینچتے ہو پس جب تسریح کو انہوں نے پسند نہ کیا تو ضفیرہ ہونگے نہ خلف ظہر۔ کیونکہ اگر کھلے ہوئے بال خلف ظہر ہونگے تو سب ایک ہوجائیں گے تین ضفیرہ نہ ہونگے ۔ اور حضرت عائشہؓ اول تو ایسی بات سماعًا کہتی ہونگی اور اگر بالرائے بھی فرمایا ہو تو ام عطیہؓ وغیرہ کے فعل سے حضرت عائشہؓ کا قول بہت زیادہ قابل قبول واولیٰ بالعمل ہوگا۔ یہ خلاف صرف اولویت میں ہے جائز دونوں طرح ہیں ابدأ بمیامنھا ومواضع الوضوء متفق علیہ ومعمول بہا ہے۔