نہیںہوسکتی اگر ہوتو کوئی کسی طرح ثابت کردکھلاوے۔
باب تزوج المحارم
امام صاحب فرماتے ہیں کہ نکاح سے ایک قسم کا شبہ پیدا ہوگیا اور الحدود تندری بالشبہات۔ پس حد ساقط ہوئی۔ تعزیرا خواہ امام اس کو قتل کردے یا جیل میں ڈالدے یہ روایت آتیہ براسہ کی امام صاحب کے خلاف پر دلیل نہیں ہوسکتی بلکہ اس سے صریح قتل ثابت ہے جو تعزیر ہے نہ کہ حد پس یہ امام کی دلیل ہوگئی۔
باب عتق الممالیک عندالموت
نفاذ فی الثلث میں تو اتفاق ہے باقی اختلاف اس میں ہے کہ تعیین کس طرح ہوگی؟ امام شافعی قرعہ سے تعیین فرماتے ہیں خیر اس کا جواب تو ہورہے گا پہلے تو امام شافعی کو ایک امر خلاف مذہب تسلیم کرنا پڑا وہ یہ کہ جب ہر ایک کے ثلث میں نفاذ حریت ہوا تو چاہئے تھا کہ چھ کے چھ آزادہوجاتے کیونکہ تجزی تو وہاں ہونہیں سکتی۔ اور جب چھ پورے آزاد ہوگئے تو اب چار کو غلام بنانااور دو کو حر بنادینا سخت دشوار ہے۔ گوہر ایک کے چھٹے حصے کو بھی حریت سے رقیق بنانا مشکل تھا مگر یہ تو ان کے اور طرح۔ امام صاحب کا طرز سہل ہے کہ ہر ایک کا سدس حر ہوا تھا وہی حصہ حر رہا اب سعی کرکے تمام حصص آزاد ہوجائیں گے نہ وہاں کسی جز کو رقیق بنانا پڑا اور نہ حر کامل کو عبد بنانا پڑا۔ اور قرعہ کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ یہاں تعیین کرنی نہیں۔ قرعہ کو امام صاحب حجۃ ملزمہ نہیںمانتے کہ جس سے لزوم حق ہوجائے البتہ تعیین مبہم کے لئے ہوسکتا ہے جبکہ استحقاق میں سب برابر ہوں۔ قرعہ ثابت بالروایت کا جواب شراح حنفیہ دیتے ہیں کہ یہ ابتدائے اسلام میں تھا پھر منسوخ ہوگیالیکن پورا جواب نہیں کیونکہ اس کا حجۃ ملزمہ ہونا اگر ابتدائے اسلام میں بھی تسلیم کرلیاجائے تو اس قصہ میں تو ایک خرابی یہ بھی لازم آرہی ہے کہ حریت کو رفع کرکے رقیت کا ثابت کرنا لازم آتاہے اور وہ نہ ابتداء میں جائز تھا نہ کسی وقت حر کی رقیت ممکن ہے پس بہتر یہ ہے کہ اس واقعہ کو آپ ﷺ کی خصوصیت پر حمل کیاجائے کہ گوہر ایک کا ثلث آزاد ہوگیا تھا مگرآپ ﷺ نے دو کو حر بنادیا اورچار کو رقیق کیونکہ آپ ﷺ کے لئے جائز تھا کہ جس کو چاہیں حر بنادیں چنانچہ جب ایک غلام نے جس کے مذاکیر مولانانے کاٹ ڈالے تھے آکر شکایت کی تو آپ ﷺ نے آزادکردیا حالانکہ ملک غیر تھا۔ پس معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کو اختیار حاصل تھا آپ ﷺ نے اسی کی بنا پر ایسا کیا۔ اب قرعہ کا معاملہ بھی سہل ہوگیا کہ آپ ﷺ نے صرف رفع شکایت کی غرض سے قرعہ ڈال لیا ورنہ اس سے کوئی لزوم نہیں ہوتا۔
باب الزراع فی ارض الغیر
اس روایت پر امام احمد کا عمل ہے۔ جمہور کے نزدیک غلہ صاحب بذر کو ملے گا اور اجرت زمین مالک ارض کی۔ بعض