دفعہ بھی مؤخر نہیں کیا یعنی بالکل ایسا نہیں کیا چنانچہ محاورہ اسکا شاہد ہے جیسا کہ ہم کہیں کہ فلاں چیز دو کوڑی کوبھی نہ خریدیں اسکا مطلب یہ نہیں کہ ایک کوڑی کو خریدلیں گے بلکہ اس کی تحقیر اور مطلق خرید نے کینفی منظور ہے اسی طرح مطلقًاعدم تاخیر کو بیان کرنا ہے مگر بطور محاورہ بیان فرمادیا ہے مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے کبھی بھی نماز کو آخر وقت میں نہیں پڑھا۔ باقی اب امامت جبرئیل اور تعلیم اعرابی کے مواقع اور جہاد وغیرہ کی تاخیر یہ واقع میں تاخیر ہی نہ تھی بلکہ صاحبِ شرع اور صاحب حق کا یہی حکم تھا تاخیر وہ ہوتی ہے کہ اپنے تکاسل وغیرہ سے ہو جبکہ صاحب الامر حقیقی نے آخر وقت میں پڑھنے کا حکم دیدیا تو وہی اصل ہے۔ تاخیر وہ ہوتی ہے کہ بلاعذر اپنی کوتاہی سے تاخیرکی جاتی اس صورت میں حضرت عائشہ ؓ کو امامت جبرئیل سے بے خبر کہنے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ وہ مطلق تاخیر کی نفی فرماتی ہیں کما مّر۔
باب من نام عن صلوٰۃ
امام کا یہ مذہب ہے کہ مستیقظ کو بھی اوقات مکروہ میں نماز نہ پڑھنی چاہیے۔ شافعی ؒ وغیرہ جائز فرماتے ہیں۔ روایتیںہر دو جانب ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ امام شافعی ؒ نے ان احادیث کو علی اطلاقۃ رکھکر احادیث ممانعت و کراہت میں تخصیص فرمائی یعنی ان اوقات میں نماز نہ پڑھنی چاہیے مگر مستیقظ من النوم یا ناسی عن الصلٰوۃ کو بس اب معنیٰ درست ہوگئے اورامام نے ممانعت و کراہت کی احادیث کو علی اطلاقہ رکھکر ان روایات میں تخصیص کی یعنی مستیقظ اور ناسی کو بفور جاگنے اور یاد آنے کے نماز پڑھ لینی چاہیے مگر اوقات مکروہہ میں نہ پڑھیں کیونکہ یہ منہی عنہا ہیں اور صاف بات ہے کہ احادیث نہی روایاتِ اباحت سے مقدم ہوتی ہیں اور بنظر انصاف امام صاحب ؒ کو کسی طرح کی تخصیص کی ضرورت نہیں بلکہ وہ سیدھے معنیٰ لیتے ہیں کہ نائم اور ناسی کو جب یاد آوے تب پـڑھ لیں یہ نہیںکہ یاد آنیکے بعد ایک لمحہ ولحظہ کی دیر بھی نہ ہو ورنہ لازم آئے گا کہ بفور جاگنے اور یاد آنے کے شروع کردے خواہ وضوء سے ہو یا بے وضوء باقی رہی فاؔ اسے تعقیب کے لئے نہ لیجئے بہت سے مواقع میں باوجود تراخی کے فاؔ کااستعمال کیا گیا ہے۔ پس یہاں بھی بلا تکلف یہ معنیٰ ہیں کہ اسی وقت کرلے دیر نہ کرے کہ ٹلاتا رہے البتہ ایسا فوراً ادا کرنا کہیں پایہ ثبوت و وجوب کو نہیں پہنچتا ۔ اور جب اس حدیث کی شان نزول پر نظر کیجئے تو صاف یہی معنیٰ معلوم ہونگے وہ یہ کہ لیلۃ التعریس کی صبح کو جب آپ ﷺ بیدار ہوئے اور رفقائے سفر بھی گھبراکر جاگے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ صاحبو ہمارے نفوس اللہ تعالیٰ کے ید قدرت میںتھے جب چاہا چھوڑا اور جب تک چاہا روکے رکھا پس گھبرانے کی کوئی بات نہیں بلکہ من نام عن الصلوٰۃ او نسیھا فلیصلھا اذا ذکرھا اب آپ ﷺ نے وہاں فوراً نماز شروع نہیں کردی بلکہ وہاں سے رواحل کو بندھوایا اور تھوڑی سی مسافت کو طے کر کے وضوء اور اذان مع الاقامت سے بفراغت نماز ادا فرمائی اس سے صاف معلوم ہوگیا کہ تراخی جائز ہے علی الفور ادا ضروری نہیں ورنہ آپ