طرح ہوگا۔ رقبیٰ میں خلاف ہے امام احمدتو جائز فرماتے ہیں اور مثل عمری کے کہتے ہیں۔ دیگر حضرات قائل نہیں اور خلاف در اصل تفسیر رقبیٰ میں ہے۔پس جو صاحب کہتے ہیں کہ یہ ہبہ اس وقت نہیں بلکہ موت پر مشروط ہے اورہبہ بالشرط جائز نہیں پس وہ رقبیٰ کو بھی ناجائز فرماتے ہیں جو لوگ کہتے ہیں کہ رقبیٰ ہبہ فی الحال ہے باقی عود اور رجوع مشرط بشرط ہے وہ اس کو مثل عمریٰ کے فرمائیں گے الحاصل خلاف اس کے ہبہ بالفعل ہونے نہ ہو نے میں ہے جو ہبہ بالفعل کہتے ہیں وہ جائز فرماتے ہیں جو نہیں وہ نہیں۔
باب وضع الخشبۃ
کی روایت سے بعض نے ممانعت کو حرام کہا ہے لیکن اگر تحریم بھی مان لی جائے تو خلاف اس میں ہے کہ منع کرنے کاحق حاصل ہے یا نہیں؟ اس روایت میںصرف مالک کو حکم ہے کہ منع نہ کرو معلوم ہوا کہ دوسرے کو اجازت کی ضرورت ہے۔اور اس کو حق ممانعت حاصل ہے گو منع کرنا بہت بے مروتی کی بات ہے وہو قول الامام۔
باب الیمین
گفتگو اس میں ہے کہ توریہ قسم میں جائز ہے یانہیں؟ پس کسی مظلمہ سے بچنے اور دفع مضرت کے واسطے جائز ہے اور ایسے توریہ میں حانث نہ ہوگا۔ اوراتلاف واخذ مال غیر یا ظلم علی الناس کے لئے توریہ جائز نہ ہوگا بلکہ ظاہری حال ومقال پر قاضی حکم کرے گا۔
باب تخییر الغلام
امام صاحب اختیار فی الابوین کے قائل نہیں اوریہ بیان کرتے ہیں کہ یہ قصہ آپ ﷺ کی خصوصیت پر محمول ہے۔ مذہب یہ ہے کہ عمرحصانۃ میں والدہ مقدم ہے اوربعد اس کے والد۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ بین المسلم والکافر توبالاتفاق اختیار نہیں بلکہ خیر الابوین کے تابع ہوگا مگر ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے مسلم وکافر ماں باپ کے درمیان بھی تخییر کردی تھی چنانچہ لڑکے نے کافرہ والدہ کی طرف جانا چاہا آپ نے اللہم اہد فرمایا تو والد مسلم کی طرف چلاگیا وہاں صورت تخصیص پرحمل کرنے کے سواء اور کوئی چارہ نہیں ہے ایسا ہی یہاں بھی۔
باب بلوغ صغیر
جمہور ائمہ پندرہ سال کوغایت سن بلوغ کہتے ہیں اور امام صاحب اٹھارہ سال کو۔ روایت نہ امام صاحب کے پاس ہے نہ جمہور کے۔یہ ایک موقوف براختلاف امزجہ اور عرفی امر ہے۔باقی ابن عمر ؓ کا لشکر کے لئے قبول ہونا نہ ہونا یہ بلوغ کی دلیل