اگر زندہ نکلے تو بالاتفاق ذبح کیاجائے۔ اگرزندہ نہ ہو تو اورائمہ اس کو ماں کے تابع کہتے ہیں امام صاحب جائز نہیں فرماتے اور معنی اس روایت کے یہ لیتے ہیں کہ جنین کی زکوٰۃ مانند اس کی ماں کی زکوٰۃ کے ہے چنانچہ دوسری روایت میں زکوٰۃ امہ بالنصب ہے جو صریح موافق حنفیہ ہے اور اسکی وجہ سے اس روایت کے معنی بھی اسی قسم کے لئے جائیں گے۔ نیز ابراہیم نخعی جو روایت فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ نفس لا یکون زکوٰۃ نفسین اس سے بھی صریح تائید حنفیہ نکلتی ہے۔
باب ذی المخلب وذی الناب
ذی مخلب وذی ناب کی حرمت پر پورا عمل حنفیہ کاہے دیگر ائمہ نے بعض جانوروں کی تخصیص کی ہے حالانکہ وہ صریح ذمی یا مخلب یا ذی ناب ہیں انہوں نے بعض روایات کی وجہ سے تخصیص کی۔ امام صاحب نے قاعدہ کلیہ کی رعایت کی۔
باب قتل الوزغ
قتل کاحکم اس لئے کہ وہ اعلیٰ درجہ کا خبیث ہے۔ طعام وغیرہ پر اس کے پھر جانے سے نفرت آتی ہے اس کی خباثت جلی ہے۔ غایت خباثت کایہ اثر تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آگ میں نفخ کرنے کو گیا۔ لیکن اس نفخ کی وجہ سے خبث پیدا نہیں ہوا بلکہ خباثت کی بات تھی جو نفخ کی نوبت آئی۔ مضمون ایذاء وخبث اس میںاصلی ہے پہلے ضربہ کی تخصیص بوجہ تحریض علی القتل کے ہے چھپکلی (سام ابرص۔ کرفش) بھی اسی حکم میںہے۔
باب قتل الحیات
اکثر کا مذہب یہ ہے کہ اب تخریج کی کچھ ضرورت نہیں۔ خیر اگر ابیض مثل فضہ ہو تو نہ مارے کیونکہ کچھ زہر نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں کہ تخریج خاص مدینہ کے واسطے تھی کیونکہ وہاں ایک قوم جنات بصورت حیات آباد تھی۔ غرض یہ ہے کہ تخریج ضروری نہیں اگرچاہے ایک دفعہ کرے ورنہ خیر۔
باب قتل الکلاب
مجموعہ عالم کے لئے تمام انواع موجودات گو وہ ارذل رذیل ہوں بمنزلہ عضو کے ہیں جیسا جسد انسانی ایک عضو کے معدوم ہوجانے سے ناقص رہ جاتاہے اسی طرح کسی قسم کی اشیاء کے بالکل عدم سے عالم کے مجموعہ میں نقص آجاتاہے آپ ﷺ نے اسی لئے سب کے قتل کاحکم نہ فرمایا سخت سیاہ جو موذی زیادہ ہوتاہے اس کے قتل کاحکم فرمایا۔ احمد فرماتے ہیں کہ اس کا لایا ہوا صید بھی کھانا جائز نہیں کیونکہ وہ تو شیطان ہے۔ دیگر ائمہ جائز فرماتے ہیں، لأنہ شیطان مجازا کلب حقیقۃ کلب حفاظت کے رکھنے سے اجر میں کمی نہ ہوگی باقی دخول ملائکہ خواہ اس سے اس میںحرج آوے یا نہ آوے قیراط وقیراطان سے تجدید