جگہ کاعامل نہیں بناتے۔تب آپ ﷺ نے فرمایا لابی عنہما وہ تو بمنزلۂ سمع وبصر ہیں پس میں ان کو اپنے سے جدا نہیں کرسکتا۔
صواحب یوسف: تشبیہ یا صرف اس امر میں ہے کہ جیسے وہ ایک بات پر جم گئی تھیں ایسے ہی تم بھی ہو اور یایہ کہ جیسے ان کے دل میں خیانت تھی تمہارے دل میں بھی غرض پوشیدہ ہے کہ رقت وغیرہ کا جو عذر حضرت عائشہ نے کیا وہ درست تھا اور سچا تھا لیکن دل میں ان کے یہ بات تھی کہ آنحضرت ﷺ کا مرض ہے ترقی پر اگر انتقال ہوگیا تو لوگ امامت ابی بکر کو منحوس خیال کریں گے ا سلیے وہ اس کا ٹالنا چاہتی تھیں حضرت حفصہ اس خیال مخفی کو نہ سمجھیں لیکن آنحضرت ﷺ الم تک پہنچ گئے اس لیے آپ ﷺ نے یہ جملہ فرمایا اخیر مطلب تحقیقی معلوم ہوتاہے۔
لوکان بعدی نبی لکان عمر: اس سے حضرت ابوبکر کی قابلیت کی نفی نہیں نکلتی اور چونکہ افضلیت ابوبکر پر اجماع ہوچکا ہے لہٰذا یہاں بھی مراد ہوگا کہ ابوبکر کے سوا۔ اور بعض حضرات نے انبیاء کی دو قسمیں کی ہیں ایک تو صاحب کتاب وشریعت مستقلہ اور ایک وہ کہ سابق نبی کی شریعت کی ترویج وتائید اور اس کی کتاب پر عمل کرے البتہ مثل مجدد کے ان احکام کی پابندی کی تاکید کرے جن کو لوگوں نے چھوڑدیاہے جن کی شان میں علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل وارد ہے۔ پس بعد اول قسم کے نبی کی گنجائش واحتمال نہ تھا اس لیے عمر کو فرمایا گیا اورظاہر ہے کہ اس قسم کے مناسب حضرت عمر ہی کی شان تھی کہ اشدہم فی امراللہ تھے تجدید کے لیے بھی مناسب تھے ہاں اگر قسم اول کا احتمال ہوتا تو اس کے لیے ابوبکر زیبا تھے۔
لرجل من امت محمد: اس کے جواب میں آپ ﷺ نے أنا محمد فرمایا ۔ مطلب تو یہ ہے کہ میں تو خود موجود ہوں۔ اور تحقیق یہ ہے زبان عرب میں جب آل فلاں یا قوم فلاں بولتے ہیں تو وہ فلاں بھی اس سے خارج نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ توخود وہی مراد ہوتاہے چنانچہ اعملوا اٰل داؤد وغیرہ سے یہ استعمال ثابت ہے۔ اس بیان سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ انا سید ولد اٰدم ولا فخر سے صرف فضیلت علی بنی آدم ہی ثابت نہیں بلکہ خود آدم علیہ السلام پر بھی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ جیسے آل اور قوم فلاں کہنے سے فلاں خارج نہیں ہوتا ایسے ہی حضرت آدم بھی یہاں سے خارج نہیں ۔ (او للفقیر شبہات فی ہذا التقریر کما لا یخفی علی من اعطیٰ فہما من اللہ الکبیر)
الشیطان یفر من عمر: یہ نہیں کہ منشاء خوف آنحضرت ﷺ میں عمر سے کچھ کم تھا بلکہ وجہ یہ ہے کہ عمر اس منشاء کے خاص مظہر تھے اور یہ ممکن ہے کہ کسی میں منشاء کسی شے کا کم ہو لیکن ظہور اس سے زیادہ ہوتاہو پس چونکہ اس قسم کے امور کاظہور حضرت عمر سے زیادہ ہوتا تھا اس لیے شیطان ان سے بھاگتا تھا (یہاں کچھ زیادہ تقریر نہیں فرمائی) چونکہ عورت نے نذر کرلی تھی آپ ﷺ نے اجازت فرمادی کہ اس پر کفارہ وغیرہ نہ ہو اور یہ حیران نہ ہو اور کوئی امر حرام تھا نہیں۔