نے ظاہری معنی (فتح مکہ وغیرہ) بیان کئے آخر میں ابن عباس سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اس سے مراد اجل رسول اللہ ﷺ ہے حضرت عمر نے تائید کی کہ مجھ کو بھی یہی معلوم ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ عمر نے غالبا عبدالرحمن بن عوف کو اس بات کا جواب دینے کو یہ معاملہ کیاتھا۔ ابن عوف ابن عباس کے قرآن میں شاگرد بھی ہیں۔ معلوم ہوتاہے کہ ابن عباس نے یہ تفسیر اس طرح سمجھی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب فتح اور دخول ناس فی الاسلام ہوگیا اب آپ ﷺ استغفار وتسبیح کریں چونکہ نبی کاکام ہدایت تھا معلوم ہوا کہ وہ ختم اور پورا ہوچکا۔ اب آپ ﷺ کو دنیا سے رخصت ہونا چاہیے کیونکہ انبیاء دنیا میں تسبیح پڑھنے کی غرض سے نہیں آتے بلکہ ہدایت کے لیے۔ اب کار نبوت وہدایت تمام ہوگیا آنحضرت ﷺ کو آرام سے تسبیح کرنی چاہیے پس دنیا سے قطع ہوجانا چاہیے۔ ظاہر یہ ہے ۔ باقی صحابہ کا فہم اور رائے عالی تھی کیا عجب ہے کہ کسی اور مناسبت سے سمجھے ہوں۔
ابواب الدعوات یذکراللہ فی کل احیانہ: یعنی ان احیان کے سوا جن میں کہ ذکراللہ منع ہے جیسے خلاوغیرہ کی حالت۔
احیانی بعد ما اماتنی: وغیرہ موت وحیات میں تشکیک ہے۔ کامل حیات اہل جنت کی ہوگی ہماری حیات میں بہت سے نقص شامل ہیں ایسے ہی شہداء کی حیات بھی ایک درجہ کی حیات ہے۔ اسی طرح موت متفاوت ہے نائم بھی کسی درجہ میں میت ہے گو کمال موت حاصل نہ ہو۔
تعطف العز وقال بہ: یعنی عزت کو ردا بنالیا اور اس کو اپنے لیے خاص کرلیا۔ اسی کے مطابق جزا دی۔ قال افعال عامہ میں سے ہے ہر ایک مناسب معنی میں مستعمل ہوتاہے ۔ یا قال بہ کے معنی ہیں امر بہ کے۔ اسی کا امر کیا کہ میری تعظیم وعزت کرو یا یہ کہ اسی کے مناسب احکام جاری کیے۔ علی کی روایت میں فاذا قال من السجدتین رفع یدیہ سے مراد قیام بعد الرکعتین ہے۔
ادعیہ طویلہ کے جواز میں کلام نہیں البتہ فرائض میں امام صاحب ان کو اولیٰ نہیں فرماتے ہیں بلکہ جو ادعیہ قولا ثابت ہیں اور عادت شریف فرائض میں ہمیشہ وہی رہی ہے ان کو اولیٰ کہتے ہیں۔ اگر آپ ﷺ نے فرائض میں احیانا ادعیہ طویلہ پڑھی بھی تو اس سے جواز معلوم ہوتاہے مداومت اور عادت صرف ادعیہ مختصرہ کی تھی جو احادیث قولی سے ثابت ہیں مثلا سبح اسم نازل ہونے پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اجعلوہا فی سجودکم البتہ نوافل میں عادت شریف طول کی تھی اور تطوع میں امام صاحب ادعیہ طویلہ کو اولیٰ فرماتے ہیں۔ اس روایت میں قام الی الصلوٰۃ المکتوبۃ آتاہے یاتو یہی جواب ہے کہ احیانا ایسا بھی کیا اور اس سے صرف جواز نکلتاہے یایہ کہ حضرت علی نے رفع یدین فی المکتوبہ کو بیان کیا اس کے بعد ادعیہ ذکر فرمادیا۔ یہ نہیں کہ یہ ادعیہ بھی فرائض کی تھیں۔