لیلۃ الجن: کے بارہ میں ماصحبہ احد کے یاتو یہ معنی لئے جائیں کہ خاص ملاقات جنات وغیرہ کے موقع خاص پر کوئی ساتھ نہ تھا۔ یا تعدد قصہ پر حمل کیاجائے کماہو المشہور۔ پس اس میں اور ابن مسعود کی روایت تمرۃ طیبۃ وماء طہور میں تعارض نہ ہوگا۔ شوافع اس روایت کی تضعیف کرتے ہیں مگر حنفیہ تعدد وغیرہ پر حمل کرکے رفع تعارض کرتے ہیں۔
ماذکر ابن لزبیر جدہ: حضرت ابوبکر نانا ہیں ابن زبیر کے۔ ان کی والدہ اسماء بنت ابی بکر ہیں۔ ؓ اجمعین۔
انشق القمر بمکۃ مرتین: ممکن ہے کہ مراد تعدد انشقاق ہو اور ظاہر یہ ہے کہ مرتین سے مراد دوٹکڑے ہوجانا۔ (کماجاء فی الروایات فلقتین وغیرہ)
وسقا ستین مسکینا: یہ مؤید ہے حنفیہ کے کیونکہ وہ فی مسکین ایک صاع دلواتے ہیں اور وسق پورے ساٹھ صاع کا ہوتاہے۔ پس معلوم ہوا کہ ایک صاع فی مسکین دیاجائے شوافع نصف فرماتے ہیں۔
فلم یبق الا اثنا عشر رجلا : یہ شوافع کی مخالف ہے کیونکہ ان کے یہاں جمعہ چالیس آدمیوں سے کم میں ہوتا ہی نہیں( انہوں نے جواب بھی دییے ہیں مسلم کی تقریر اس کاپورا بیان ہے)
ابن ابی کے قصہ میں حضرت عمر کا اضرب عنق ہذا المنافق فرمانا ممکن ہے کہ بعد نزول وحی ہو۔
فلما اصبحنا قرء علیہ السلام: ممکن ہے کہ نزول وحی تو آپ ﷺ کے ضحک فرمانے اور کان ملنے سے پہلے ہوچکا ہو مگر آپ ﷺ نے اسی قدر پر بس فرمایا۔ زبان سے وحی وغیرہ کی خوشخبری نہ دی کہ وہ کل کو مجمع عام میں سنادی جائیگی کچھ جلدی نہیں اور یہ بھی ہوسکتاہے کہ اس وقت تک وحی نہ آئی ہو مگر آپ ﷺ نے ان کو غم میں گھلتا دیکھ کر انکا ازالہ رنج کردیا اور واقع میں آپ ﷺ ان کو اس معاملہ میں قبل از وحی کاذب نہ سمجھتے ہوں بلکہ طرز ایسا ہوگیا ہو جس سے ان کی تکذیب سمجھی گئی ہو مثلا انہوں نے حال بیان کیا اور ابن ابی نے انکار کیا آپ ﷺ نے قصہ کوتاہ کرنے کو مدافعانہ فرمادیا کہ خیر تم نے نہیں کیا ہوگا ان سے غلطی ہوئی وغیرہ ذلک۔ پس یہ اپنی تکذیب سمجھے۔ اب آپ ﷺ ان کو غم میں مبتلا دیکھتے ہیں تو صاف صاف فرمانا تو مصلحت نہیں سمجھتے کہ تم صادق ہو کیونکہ پھر ابن ابی اس کو اپنی تکذیب سمجھے گا اور قصہ بڑھے گا البتہ آپ ﷺ نے کان مل کر اور ضحک فرماکر ان کا ازالۂ رنج کردیا اور بعد کو وحی بھی نازل ہوئی۔
واللہ شہید انہم لکاذبون: کے معنی بھی اس تمام قصہ اور روایت سے سمجھ میں آگئے کہ اس واقعہ سے یہ استدلال کرنا کہ مدار صدق وکذب اعتقاد ہے یہ استدلال درست نہیں اور یہ کہ مستدلین نے تو معنی سمجھے نہ تھے مگر جن لوگوں نے جواب دیا وہ بھی بلا سمجھے جواب دینے لگے۔ آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ جب منافقین نے انک لرسول اللہ کہا تو منظور ان کو اپنے قول ماسبق اور مافیہ النزاع کی نفی تھی اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ یہ لوگ اپنے اس قول میں کاذب ہیں یعنی واقع میں انہوں