فیقول انی عبدت من دون اﷲ: اس روایت میں اقرر خطا کا ذکر ہے بعض میں یہ نہیں۔ اگرچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اس میں کچھ قصور نہ تھا لیکن چونکہ مقربین کو خوف زیادہ ہوتاہے لہٰذا درجہ نبوت کی یہ بھی خطا ہے اور نیز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جوبعض کلمات نقل کیے گئے ہیں وہ چونکہ ذرا موہم تھے اس لیے گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام باعث ٹھہرے کہ لوگوں نے ان کو ابن اللہ کہا۔ گوحضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جو کلمات کبھی فرمائے تھے (مثلا ابن اللہ وغیرہ) تو وہ اصل معنی پر محمول نہ تھے لیکن عتاب ہوسکتا ہے کہ صاف کیوں نہ کہایاکہئے کہ ندامتا یہ عذر فرمایاہے۔
حضرت عائشہ: جو اپنے قصہ میں لم یبلغ منہا ما بلغ منی فرماتی ہیں مطلب یہ ہے کہ والدہ کو میرے برابر رنج نہ تھا وجہ اس کی یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ ایک ماہ کی مدت گزر گئی تھی لہٰذاان کا رنج کم ہوگیا تھا۔ کمالایخفی۔ اس کے علاوہ بات یہ ہے کہ گو والد ووالدہ ہی کیوں ہوں جس قدر رنج اپنے نفس کوہوتاہے دوسروں کو اس سے کم ہوتاہے۔ مسطح حضرت ابوبکر کے خالہ کے بیٹے ہوتے تھے(آج کچھ تقریر نہ ہوئی تھی)
اہل بیت سے مراد: اہل سنت کے نزدیک یا تو ازواج مطہرات ہیں مع حضرات حسنین وعلی وفاطمہ ؓ کے۔یا صرف ازواج ہی مراد ہیں اول قول زیادہ مشہور ہے غرض اہل سنت کے نزدیک ازواج کے داخل اہل بیت ہونے میں اختلاف نہیں۔ شیعہ اس کا خلاف کرتے ہیں باقی آپ ﷺ کا ان کو رداء میں لیکر فرمایا کہ ہؤلاء اہل بیتی بنابر قول مشہور تو یہ ہے کہ اس سے حصر نہیں ہوتا اور علیٰ قول ثانی تو بہت ہی ظاہر ہے کہ چونکہ یہ حضرات مصداق اہل بیت سے خارج تھے لہٰذا آپ ﷺنے ان کو بھی ایک جگہ جمع فرماکر داخل اہل بیت کیا۔ باقی رہیں ازواج وہ تو پہلے سے خود ہی داخل ہیں ان کو داخل کرنے کی اب ضرورت نہ تھی اس لیے فرمادیا کہ یاام سلمہ انت علی مکانک یعنی تم خود اپنی جگہ اور مرتبہ پر ہو اب تم کو داخل ہونے کی کیاضرورت ہے تم تو اصلی مصداق ہو۔ اور علی القول المشہور حضرت ام سلمہ کو اس میں نہ لیا۔ اس لیے کہ حضرت علی غیر محرم اس میں موجود تھے۔
انا خیر من یونس الخ: ایک یہ بھی صورت ہے کہ فقد کذب کے معنی فقد أخطأ کے ہوں یعنی گو بات فی نفسہ درست ہے مگر اس نے اچھا نہ کیا خطا کی۔
یخرج من الارض کھیئۃ الدخان: اس قصہ میں حضرت ابن مسعود کو واعظ کی تکذیب کرنی تھی کہ اس نے اس کو عذاب آخرت سمجھا حالانکہ یہ دنیاوی عذاب ہے اور ان کی یہ غرض قول منصور سے خوب معلوم ہوتی ہے کہ ابن مسعود کو اس کی تردید کرنی تھی کہ یہ عذاب آخرت سے ہے۔ باقی اس روایت کا ابطال مقصود نہیں جس میں دخان کا نکلنا قرب قیامت میں ثابت ہے مطلب یہ ہے کہ وہ عذاب دنیاوی ہوگانہ کہ اخروی۔