نوع کے اختیار کا دخل مانا ہے گو غیر معلوم ہو۔ ٹھیک یہ ہے کہ عزم میں بھی معصیت ہے باقی یہ بات کہ آیا وہی معصیت لکھی جائے جس کا عزم تھا یا اور کوئی۔ اس میں صحیح یہ ہے کہ صرف عزم کا گناہ ہوگا(وذالک کلمۃ تلفظ من تقریر اسلم)
کنتم خیر امۃ: امم سابقہ انہتر ہوں گے مگر معلوم نہیں وہ کون کون ہیں؟ البتہ یہ معلوم ہے کہ ستر ویں امت امت محمدیہ ﷺ ہے کیونکہ آپ ﷺ نے فرمادیا ہے۔(وانظر فی الحاشیۃ مانقل عن مولانا محمد اسحق)
وانزل فیہا ان المسلمین والمسلمات الخ: یعنی جب انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ ہمارا کیاحال ہے کہ ہمارا ذکر قرآن میں صریحا کہیں بھی نہیں، چنانچہ اور روایات میں مفصل ہے، یہ مختصر روایت ہے۔
فجزاء ہ جہنم خالدا: اگر مومن ہوکر قتل نفس کرتے تو جزاء جہنم ہے باقی سورئہ فرقن کی استثناء یعنی الاالذین آمنوا الخ اس کا یہ مطلب ہے کہ حالت کفر میں قتل کیا اورپھر اسلام لایا مشہور یہ ہے کہ ابن عباس قاتل نفس کے لیے خلود جہنم کے قائل ہیں (تمیم داری کے قصہ جام کے اختلاف روایات کا فیصلہ افسوس کہ ہماری تقریر میں نہیں)
نظر نبی اللہ ﷺ الی المشرکین وہم الف واصحابہ ثلٰثمأۃ الخ: یعنی تین سو دس سے کچھ زیادہ اس زیادتی کے بارہ میں صحیح یہ ہے کہ ۳۱۳ تھے( اور عدد بھی مروی ہیں) چونکہ وعدہ علی التعین غیر یا نقیر کا تھا اس لیے آپ ﷺ کو اضطراب تھا کہ ممکن ہے کہ یہاں ہزیمت ہو اورپھر عیر پر فتح ہو۔(علاوہ ازیں دعاء وغیرہ منافی وعدہ نہیں) شاہ ولی اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ اس موقع میں حضرت ابوبکر کاکشف آنحضرت ﷺ سے سابق ہوگیا۔ یعنی آگے بڑھ گیا۔
ثم دعاہ فقال لاینبغی لاحدالخ: اور دوسری روایت سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت علی ؓ ان سے راستہ میں ملے ہیں پس وجہ تطبیق یہ ہے کہ آپ ﷺ نے ابوبکر کو طلب کرایا مگر وہ جاچکے تھے نہ ملے تب آپ نے وہ کلمات فرمائے اور حضرت علی کو روانہ فرمایا۔ طلب کے بعد حضرت ابوبکر کامل جانا اور آناضروری نہیں اور ایسے ہی لاینبغی لاحد الخ کلمات کا ان کے سامنے فرمایا جاناضروری نہیں۔
لنسئلنہم اجمعین الخ: یاتو عماکانوا یعملون کے فرد افضل کو بیان فرمایا ہے اس لیے لا الہ الااللہ سے تعبیر کی ہے یا یہ کہ موقع تفسیر میں الفاظ عام سے خاص مراد لیا گیا ہے اور فی الحقیقت تو اصل اعمال یہی ہیں اور جوکچھ عمل ہیں وہ اس کے فروعات ومتعلقات ہیں۔
الروح من امر ربی: یعنی تم حقیقت نہیں دریافت کرسکتے اتنا سمجھو کہ امر رب ہے اور بعض محققین نے جو عالم کی تفسیر کی ہے وہ کہتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ منجملہ اور انواع کے روح عالم امر سے ہے پس ہم کو صرف اس قدر اطلاع دی گئی کہ اس قسم سے ہے۔