ادعونی استجب لکم: الدعاء ہو العبادۃ کے یاتو یہ معنی کہ ادعونی سے مراد اعبدونی ہے یا دعا کرنا بھی ایک عبادت ہے۔
فنزلت ان ینکحن الخ: اس آیت کے متعلق دو مسئلے ہیں ایک تو یہ کہ ولی کا ہونا شرط نکاح ہے یانہیں؟ دوسرا یہ کہ اجبار کس پر ہے کس پر نہیں یہاں ترمذی مسئلہ ولایت نکاح پر استدلال کرتے ہیں کہ اس سے اولیاء کا اختیار معلوم ہوتاہے۔ پس ترمذی کا یہ استدلال ہم بھی مانتے ہیں مگر یہ تو یہاں سے معلوم نہیں ہوتا کہ بدون ولی کے نکاح درست ہی نہیں بلکہ ظاہر یہ ہے کہ وہ منع کرسکتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اب ان کو منع کرنے سے باز رکھا اور پھر نکاح کو نسوان کی طرف منسوب کیا اب تو یہ حنفیہ کی دلیل ہوگئی کہ وہ خود بھی نکاح کرسکتی تھیں۔(کتاب النکاح میں اس کا بیان گزرا)
صلوٰۃ وسطی: بموجب قول صحیح ومشہور عندالحنفیہ صلوٰۃ عصر ہے چنانچہ روایات صحیحہ اکثر اس پر دال بالتصریح ہیں چنانچہ اس کا بیان گزرچکا ہے اب شوافع حضرت عائشہ ؓ کے اس فرمانے سے استدلال کرتے ہیں کہ چونکہ معطوف ومعطوف علیہ مغائر ہوتے ہیں لہٰذا صلوٰۃ وسطیٰ اور ہے اور عصر اور۔حنفیہ کی طرف سے اس کا ایک تو جواب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بطور تفسیر فرمایا ہوگا حضرت عائشہ ؓ نے اس کو من القرآن سمجھ لیا ہوگا اور اگر تسلیم کیا جائے کہ قرآن ہی میں سے ہے تو پھر یہ عطف تفسیری ہے جو تغائر کو نہیں چاہتا کیونکہ اس قرآت کے معنی ایسے بتانے چاہییں کہ دوسری صحیح روایات کے معارض نہ ہوں اور اگر عطف نہ ہو تو اس قرآت کو منسوخ کہیں گے۔ اس کے علاوہ یہ قرآت شاذعندالحنفیہ بمنزلہ خبر واحد ہے بھی۔ مگر شوافع تو اس کا مرتبہ اتنا بھی نہیں مانتے پھر ان کا استدلال اس سے کس طرح ہوسکتاہے؟
یحاسبکم بہ اللہ: اللہ تعالیٰ کی مراد تو ابتداء ہی سے ماسواء وساوس کے تھی لیکن چونکہ مخاطب سب کو عام وشامل سمجھے۔لہٰذ گھبرائے پس اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے بیان فرمادیا جیسے کہ حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود میں ابتداء ہی سے من الفجر مراد تھا لیکن تصریح نہ تھی جب غلط فہمی سے ابن عدی نے خلاف مراد مطلب سمجھ لیا تو اللہ تعالیٰ نے صحابہ کے شبہ کا اس طرح جواب دیا کہ لایکلف الخ فرمادیا جس سے صحابہ سمجھ گئے کہ وساوس داخل نہ تھے۔ یہ جواب اس طر ز پر تھا اور دوسرا جواب حضرت عائشہ ؓ کا ہے اور واقعی وہ افضل جواب ہے کہ جب صحابہ آیت کے نزول سے مضطرب ہوئے تو فرمایا گیا کہ امور صغیرہ حقیرہ مصائب سے معاف ہوجاتے ہیں اس جواب سے یہ خوب سمجھا جاتاہے کہ انہوں نے یہ سمجھا کہ وساوس تومصائب سے معاف ہوجاتے ہیں جن کے ہم لوگ عادی ہیں اور وہ صغیرہ وحقیرہ امور ہیں جن سے بچنا سخت مشکل ہے۔ الا ماشاء اللہ۔ اور اول جواب وہی تھا کہ لایکلف اللہ نفسا الا وسعہا۔ محققین کے نزدیک وساوس وخطرات معاصی بھی مذمت کے کسی مرتبہ سے خالی نہیں۔ پس چاہیے کہ ان سے بھی اجتناب کیاجائے چنانچہ محققین نے ثابت کیا ہے۔ شیخ مجدد نے لکھا ہے کہ شیخ اکبر وساوس پر بھی ایک قسم کا مواخذہ ثابت کیا ہے اور وساوس وخطرات میں بھی ایک