مختلف باختلاف المواقع والجہات۔
المٓ غُلبت الروم: اہل روم کو بدر سے پہلے تو فارس سے شکست ہوئی تھی اور بدر کے ساتھ ساتھ فارس پر غلبہ ہوا تھا۔ پس اگر غلبت (بصیغہ معروف) پڑھاجائے تو آگے چل کر آخر آیت پر سیغلبون پڑھاجائیگا۔ اور معنی یہ ہوں گے کہ اب (یعنی عین فتح بدر کے ہمراہ) تورومی غالب ہوئے مگرآئندہ مغلوب ہوجائیں گے۔ چنانچہ چند سال بعد روم پر مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی اور اس صورت میں فنزلت کے معنی بھی ظاہر ی رہیں گے اور قرآنی معجزہ تو ہے ہی۔ اور اگر غلبت (بصیغہ مجہول ) پڑھیں تو آگے چل کر سیغلبون بصیغۂ معلوم پڑھا جائیگا اور اب غلبت اشارہ ہوگا اس شکست کی طرف جو ابتداء اہل روم کو ہوئی تھی اور سیغلبون کے یہ معنی کہ عنقریب فارس ہی پر جن سے اب شکست ہوئی ہے غالبت آئیں گے لیکن اس صورت میں فنزلت کے یہ معنی ہوں گے کہ فظہرت الآیۃ یعنی مسلمانوں نے اس کو پڑھا اور اس کا مطلب ظاہر ہوگیا کیونکہ یہ قرآنی پیشین گوئی کی تصدیق ہوگئی کہ مغلوب ہوکر پھر غالب ہوگئے اگرچہ نازل پہلے ہوچکی تھی۔ یا نزلت کے معنی اصل رہیں گے مگر فا کو کسی لیے نہ لیاجائے کماہووارد فی مواضع شتی فاحفظہ ولا تنس والذکر والانثی۔ معنی ہر دو قرأت کے ایک ہیں گویہ قرأت شاذ ہے مگر چونکہ ابودرداء کو بلاواسطہ آنحضرت ﷺ سے پہنچی تھی لہٰذا ان کے حق میں شاذ نہ تھی۔ اور وہ اس کو چھوڑنا پسند نہ کرتے تھے۔ البتہ دوسروں کو قرأت کی ممانعت نہ کرتے تھے۔
نسیان قرآن اعظم الذنوب اور مذموم وہ ہے کہ ایسا بھلاوے کہ دیکھ کر بھی نہ پڑھ سکے اور کسی قسم کا اثر یاد کئے ہوئے کا باقی نہ رہے اگرچہ حافظ تھا یا ناظرہ خواں۔
عن قتادۃ انہ قال ہی منسوخۃ: پہلی دو روایت میں اور ا س میں تطبیق یہ ہوسکتی ہے کہ یہ مطلب ہے کہ آیت پہلے تو عام تھی بعدہ حق حضر میں منسوخ ہوگئی گو صلوٰۃ علی الراحلۃ اور دربارئہ تحری قبلہ باقی ہے (گو عام سے اب خاص ہوگئی والتخصیص نسخ عندنا)
فلاجناح علیہ ان یطوف بہما: دو فریق تھے یک تو اس وجہ سے طواف صفا مروہ کو مکروہ سمجھتے تھے کہ وہ ہمیشہ سے مناۃ کے نام کا احرام باندھتے تھے جو ان کا بت تھا اور صفا مروہ پر اور بت کھڑے ہوئے تھے لہٰذا یہاں طواف کرنا برا جانتے تھے وہی کراہت ان کے دل میں جمی ہوئی رہی اور دوسرا فریق اس وجہ سے مکروہ سمجھتا تھا کہ یہ تو رسم جاہلیت ہے غرض برا سمجھنے میں دونوں موافق تھے وجوہ مختلف تھیں اس پر اللہ تعالیٰ نے لاجناح نازل فرمایا کہ طواف میں گناہ نہیں۔ اب عدم اثم تحقیق وجوب وفرضیت واستحباب سب کے ضمن میں پایا جاسکتا ہے۔
فاستلمہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صلوٰۃ خلف المقام مستحب ہے اور استلام بعد الفراغت بھی ثابت ہوا۔