کذب علی رسول اﷲ ﷺ: سے کافر نہیں ہوتا لیکن گناہ بہ نسبت دیگر اکاذیب کے بہت زیادہ ہوتاہے۔ ہذا مذہب الجمہور وبعضہم قال بکفرہ۔
کثرت سوال:رسول اللہ ﷺ سے ممنوع ہے فضولیات اورغیر ضروری امور میں۔ ورنہ حوائج وضروریات میں تو پوچھنا بہت ضروری ہے۔
ابواب الاستیذان: حضرت عمر ؓ نے ابی موسیٰ سے بینہ اس لئے طلب کئے تاکہ لوگ متنبہ ہوجائیں اور خواہ مخواہ معتبر غیر معتبر روایات نہ بیان کریں کہ جب عمر ابی موسیٰ سے یہ معاملہ کرتے ہیں تو ہم کو توخوب ہی جوابدہ بناویں گے۔ یہ سبب نہیں تھا کہ حضرت عمر خبرواحد کو معتبر نہیں سمجھتے تھے وہ جانتے تھے کہ ابی موسیٰ توصادق ہیں انکوبہتیرے گواہ مل جائیں گے مگر لوگ مفت میں متنبہ ہوجائیں گے۔
وعلیہ السلام: غائب کے جواب میں کافی ہے اگر وہ علیہم وعلیکم السلام کہے کہ پہنچانے والے کو بھی شریک کرے تو اختیار ہے۔
سلام بالاشارۃ: وہ منع ہے کہ صرف اشارہ ہی سے ہو۔ اگر اشارہ کے ساتھ الفاظ بھی کہہ لے تو بلاحرج جائز ودرست ہوگا۔
راکب اور صغیر وغیرہ: کو جو ابتدائے اسلام کاامر ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ ان کو ابتداء مناسب ہے یہ مطلب نہیں کہ اگر یہ نہ کریں تو ماشی اور کبیر وغیرہ بھی سلام چھوڑدیں یا ان کو ابتدا منع ہے۔ نہیں بلکہ جو کوئی ابتدا کرے بہتر ہے البتہ مناسب صغیروراکب وغیرہ کو ہے۔
سلام علی النساء: جائز ہے اور ان کو بلند آواز سے جواب دینا جائز ہے اگر خوف فتنہ ہو تو پست آواز سے جواب دیں۔
استقبلہ رجل ففقاء عینہ: اگرکوئی مکان میں جھانکتا ہو تو اس کی آنکھ پھوڑ ڈالنے میں عندالبعض دیت نہیں آتی بظاہر الحدیث اور عندالبعض واجب ہے۔
سلم ثلاثا: ایک سلام استیذان کا او ر ایک دخول کا۔ ایک رخصت کا۔ یا یہ کہ اذن کے لیے تین سلام کرنے پر بھی جواب نہ آتا تو واپس ہوجاتے۔
السلام علیک وعلی امک: چونکہ اس نے بے موقع سلام کیا تھا لہٰذا اس کی جزا اور تنبیہ کے لیے اس کی والدہ پر بے موقع سلام کیا گیا تاکہ معلوم ہوجائے۔ بعض امور محل بدل جانے سے مذموم ہوجاتے ہیں ورنہ سلام بھی توفی نفسہ کوئی قابل رنج شے نہیں۔ بدعات میں بھی یہی ہوتاہے کہ محل کو دیکھتے نہیں فعل فی نفسہ مستحسن ہوتاہے مگراس کو بے موقع کرتے