دہی میں تامل کرتے تھے کیونکہ بوجہ قرابت وپرورش کے ابوطالب آپ ﷺ کا ذرا خیال رکھتے تھے اس کے بعد حضرت خدیجہ ؓ کی وفات تک بھی کچھ پناہ رہی لوگ ان کی شرافت وسخاوت کی وجہ سے آپ ﷺ کا لحاظ کرتے تھے۔ اس کے بعد مصائب کی بوچھاڑ ہوئی قریش بہت مخالف تھے اور لوگ ان سے ڈرتے بھی تھے اور بوجہ مجاورت کعبہ ان کا لحاظ بھی کرتے تھے اسی وجہ سے تمام لوگ آپ ﷺ کی مدد دینے سے کتراتے تھے گو آپ کی بات بعض لوگوں کی سمجھ میں آگئی تھی اور وراثی بھی انہیں وجوہ سے آپ ﷺ کو مدد نہ دیتے تھے۔ عبد کلال نے بھی علی ہذا القیاس ساتھ نہ دیا انصار مدینہ کی قسمت میں یہ نعمت لکھی تھی۔ ایک دفعہ حسب معمول آپ ﷺ نے ایام حج میں پیام خداوندی سنایا۔ لوگ ہمیشہ سن سن کر خاموش ہورہتے تھے وہی قریش کا خوف مانع تھا مگر اس دفعہ مدینہ کے بارہ آدمی بیعت سے مشرف ہوئے اور اپنے وطن میں آپ ﷺ کو بلانا چاہا اس کے بعد اگلے سال ستر آدمی بیعت سے مشرف ہوئے اور تقاضا کیا تب آپ ﷺ نے ہجرت فرمائی انصار نے یہ ایک بڑا کام کیا کہ تمام دنیا کی مخالفت کرکے آپ ﷺ کو بلایا۔ غرض ہجرت سے پہلے آپ ﷺ کا کوئی ساتھی نہ تھا تمام دنیا مخالف تھی یہ بھی ایک بڑی ایذا ہے۔غرض مجموعہ امور پر نظر کرنے سے معلوم ہوجائے گا کہ اس قدر تحمل وصبر طاقت بشری سے خارج تھا اس قدر مصائب تھے کہ بیان سے باہر اور پھر فقروفاقہ بھی انہیں میں سے تھا۔
قصہ حوت: میں قیس بن سعد عبادہ ساتھ تھے جو عرب کے سوا دیگر ممالک میں بھی مشہور طویل القامت تھے ان کو سب سے اونچے اونٹ پر سوار کرکے مچھلی کے پہلو کی ہڈی کے نیچے کو گزارا گیا تو بفراغت گزر گئے اس قدر بڑی مچھلی تھی یہ امر روایات میں مذکور ہے۔
ترک اللباس تواضعا: خلل ایمان یعنی بوجہ ایمان کے۔
عیر اخاہ بذنب: امام احمد نے تاویل بیان کی ہے مگر ظاہر یہ ہے کہ توبہ کی قید نہ لگائی جائے۔ تعبیر ہر حال میں منع ہے۔ باقی نصیحت اور بات ہے۔ یہ نہ چاہیے کہ اپنے آپ کو بہتر اور اس عیب سے منزہ سمجھے اور دوسروں کو عار لگاوے طعنہ کرے۔
نافق حنظلۃ یا رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم: آپ ﷺ سے علیحدہ ہونے سے تغیر حالت میں آپ کا کمال ظاہر ہواہے صحابہ کا نقصان نہ سمجھنا چاہئے کیونکہ وہ کیسے ہی اعلیٰ درجہ کے خالص الایمان ہوتے تھے مگر آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوکر زیادہ ترقی پاجاتے تھے۔ یہ فیض صحبت تھا۔
لجاء اﷲ لخلق جدید: اس سے طلب معاصی مقصود نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ دنیا کا مزاج خیر وشر سے مرکب ہے بدون ہر دو اجزاء کے اس کا قیام نہیں چنانچہ جب شرمحض رہ جائے گا قیامت برپا ہوجائیگی۔ اور اگر خیر محض ہوجائے تب بھی قیام عالم