اگرکسی خاص اور جزوی فضیلت میں افضل سے بڑھ جائے تو کوئی حرج نہیں یہ بات سب کی مسلمہ ہے۔
شفاعۃ کبری: کے بارے میں بعض روایات میں آتاہے کہ نوح علیہ السلام اس خطا کو پیش کریں گے کہ میں نے بیٹے کی سفارش کی تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بعض روایات میں ایک خطا کو ذکر کرنا بھی مروی ہے کہ وہ کہیں گے کہ کہیں خدا تعالیٰ یہ سوال نہ کرے کہ أأنت قلت للناس الخ شفاعت تین قسم پر ہے: شفاعت للکبائر، شفاعت للصغائر، شفاعت لرفع المدارج۔ اس اخیر کی قسم میں اتفاق ہے ۔ کبیرہ کی شفاعت کے معتزلہ منکر ہیں کیونکہ صاحب کبیرہ کی تعذیب کو واجب سمجھتے ہیں۔ اور صغیرہ کی شفاعت کبریٰ جو عامۂ خلائق کے لیے ہوگی وہ مخصوص آنحضرت ﷺ کے لیے باقی سب انبیاء واولیاء درجہ بدرجہ شفاعت کریں گے۔ ایک اعتبار سے تمام دنیا آپ ﷺ کی امت ہے کیونکہ تمام انبیاء ومرسلین آپ ﷺ کے نائب تھے اور آپ ﷺ سردار مرسلین ہیں۔
فمالہ وللشفاعۃ: یعنی زیادہ ضرورت تو اہل کبائر کو ہے صاحبین صغیرہ کو اتنی ضرورت نہیں گویا قلت ضرورت کو عدم ضرورت سے تعبیر کیا۔
الحوض من العماک الی العدن: یا تو مقدار وسعت بتلائی گئی یا صرف مبالغہ فی الوسعت منظور ہے۔
عذاب قبر: کے لئے تمام اجزاء کا مجتمع ہونا حالت اصل پر ضروری نہیں باقی مشاہدئہ قبور کے بعد بھی ممکن ہے کہ واقع میں عذاب ہوتا ہو اور ہم کو نظر نہ آوے۔
اشراف: یہ کہ بس شے کے حاصل کرنے میں منہمک اور اس کی محبت میں حیران وغرق ہو بلکہ یوں چاہیے کہ ضرورت کے لیے چیزیں حاصل کرے۔
ابتلینا بامرء فلم نصبر: معلوم ہوا کہ فتنہ فقر وغیرہ سے فتنہ مال اشد ہے۔
غلہ وغیرہ: جو ذخیرہ ہونا چاہئے کہ اس کو کیل وزن نہ کرے۔ البتہ خرچ کے واسطے وزن کرکے نکالے اس طرح برکت رہے گی۔ کما فہم من قصۃ عائشۃ۔
او ذیت فی اﷲ: آپ ﷺ کو تمام انبیاء سے زیادہ اذیت پہنچی اول تو بوجہ آپ ﷺ کے علو شان کے کیونکہ بعض دفعہ اعلیٰ درجہ کے شخص کے لئے وہی سخت ایذاء کا باعث ہوتی ہے جو اس سے کم درجہ کے شخص کے لیے بالکل باعث تکلیف وملال نہیں ہوتا یا خفیف ایذا کا سبب ہوتاہے۔ نیز بوجہ تفاوت ایذاء دہندہ کے کبھی ایذا میں شدت وخفت ہوتی ہے۔ اقربا کی ایذا سے سخت صدمہ ہوتاہے۔ دوسرے اگر تکلیف دیں تو اتنا رنج نہیں ہوتا۔ آپ ﷺ نے اپنی قوم اور خاص قریبوں سے تکالیف اٹھائیں جب تک ابوطالب زندہ رہے آپ کو کسی قدر تقویت رہی لوگ ان کے لحاظ سے ذرا تکلیف