اس کے خلاف بھی ہو تو قاعدہ میں فرق نہ آئے گا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ تو شان مومن وکافر بیان فرماتے ہیں۔یا مراد مومن کامل ہو یا یہ کہ باعتبار اس کے کہ جوان کو پیش آنے والا ہے مسلمان کے لیے دنیا بمنزلۂ محبس ہے اور کافر کے لئے بمقابلۂ امور آئندہ دنیا ہی جنت اور غنیمت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی جنت میں تمنا نہ کرے گا کہ دوبارہ جنت میں جائے۔ مگر شہید بوجہ ملاحظہ انعام واکرام غیر متناہی کے۔
فہو بنیتہ: یعنی عزم ہوجائے ورنہ خطور اورہم پر مواخذہ نہیں روایات میں یہ آیا ہے کہ گناہ کرنے کے فورا بعد نہیں لکھے جاتے بایں امید کہ شاید توبہ کرے مگر یہ اس کے منافی نہیں کیونکہ کتابت اور ثبوت اثم دوسری چیز ہے۔
زائد از حاجت: مال جمع کر رکھنا بھی مالا یعنیہ میں داخل ہے مگر جواز میں کلام نہیں، جائیداد بھی چونکہ باعث مشغولی ہوتی ہے لہٰذا منع فرماتے ہیں اباحت میں شبہ نہیں۔
ساٹھ ستر کی عمر: باعتبار اکثر کے فرمایا چنانچہ روایت میں ہے کہ کم ایسے ہوں گے کہ اس سے تجاوز کریں گے۔
مصیبت: میں مبتلا ہوکر تمنا کرے کہ کاش یہ مصیبت چند روز اور باقی رہے گو طبیعت اس کو مکروہ سمجھتی ہے مگر یہ بامید ثواب چاہتاہے کہ ابھی کچھ باقی رہے جیسے ہم امور دنیاوی میں بامید نفع باجودطبیعت پر ناگوار ہونے کے بہت سے کام کر گزر تے ہیں۔
اغنیاء: سے پانچ سو برس پہلے فقراء کے داخل ہونے میں تعارض نہیں کیونکہ عدد اکثر میں اقل کی نفی نہیں ہوتی۔
حضرت عائشہ: یا تو اس وقت کی سختی کو یاد کرکے رنج فرماتی ہیں یا یہ کہ انہوں نے سمجھا کہ یہ حالت فراخی کی ناپسند ہے کیونکہ اگر یہ حالت پسندیدہ ہوتی تو آنحضرت ﷺ کے زمانہ مبارک میں ضرور حاصل ہوتی اس واسطے رنج فرمایا۔
الاثم ماحاک: یہ ان کے لیے جن کو طبع سلیم عطا ہوئی ہو۔
فاحث التراب: مذمت اسی مدح کی ہے جو بطور خوشامد کی جائے یا جلب منفعت وغیرہ کی غرض سے ہو۔
فاحث فی افواہہن: سے مراد ممانعت عن المدح ہے نہ حقیقی معنی۔
لایاکل طعامک الا تقی: معنی معاملات مروت ومحبت وخوردونوش صلحاء سے چاہیے نہ کہ فساق سے۔
لبس جلود ضأن: کنایہ ہے غایت لین ظاہری سے کہ ظاہر میں بڑے ہی نرم وباخلاق ہوں گے۔
تقاد الشاۃ: حیوانات کا آپس میں قصاص اور عوض معاوضہ ہوگا۔ ان کامکلف ہونا علی قدر التمیز ہے۔ مواخذہ وعذاب من اللہ ان کو نہ ہوگا۔
سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کاحلہ پہننا مروی ہے۔ یا تو جناب رسول اللہ ﷺ اس سے مستثنیٰ ہیں یا کہاجائے کہ مفضول