ستکون بعدی اثرہ: حاصل جواب یہ ہے کہ میں توحق کرتاہوں جو کچھ بھی کرتاہوں البتہ میرے بعد تم کو ایسے امورر دیکھنے پڑیں گے جو بہت ناگوار گزریں گے۔
فرقہ منصور علی الحق:محدثین نے کہا ہے کہ اہل حدیث ہیں۔ بعض نے کہاوہ فقہاء ہیں بعض کہتے ہیں کہ وہ فرقہ متکلمین ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ان میںتعارض نہ مانا جائے بلکہ ہر ایک قول کے یہ معنی لیے جائیں کہ یہ فرقہ بھی اسمیںداخل ہے۔ اورحق ظاہر یہ ہے کہ وہ فرقہ ماانا علیہ واصحابی ہے۔ پس جو کوئی اہل حدیث وتفسیر وفقہ وکلام سے علی طرز صحابہ ہوگا وہ فرقئہ منصور میں داخل ہوگا ہاں ان کا فقہ وکلام وغیرہ علی طرز صحابہ ہوناچا ہئے اور اگر ان میں سے کوئی شخص طرز جدید اختیار کرے گاجو مسلک صحابہ کے خلاف ہوگا مثلا تفسیر میںکوئی جدید ڈھنگ نکالے یا فقہ اس کا علی طریق صحابہ نہ ہو تو وہ ما انا علیہ واصحابی میں داخل نہ ہوگا نہ فرقہ منصور علی الحق میں ہوگا۔ چنانچہ علماء نے علم کلام کی نسبت لکھ دیا ہے کہ فلاسفہ کا کلام ہرگز قابل التفات نہیں اس کا سیکھنا پڑھنا کہانت کی تعلیم وتعلم کی مانند ہے پس یہ فرقہ اہل کلام جو اس طرز پر چلاہے وہ ماانا علیہ واصحابی میں داخل نہ ہوگا۔ ہاں جولوگ علی طرز صحابہ علم کلام میں گفتگو کرتے ہیں وہ داخل ہیں وقس علیہ غیر ہذہ العلوم۔
لاترجعوا بعدی کفارا: بوجہ استحلال قتل مسلم کے۔
لاکسری بعدہ: یعنی قیصر وکسریٰ اپنے مقام میں پھر نہ ہوں گے۔ چنانچہ کسریٰ کے بعد اس کا جانشین ایران میںپھر نہ ہوا اور نہ قیصر کے بعد روم میں قیصر ہوا۔
مامن ام الا بعدہ شرمنہ: یعنی زمانہ واہل زمانہ کے طبائع میںروز بروز فساد ہوتا جاتا ہے پس اگر اس وقت کے ایک دوخلیفہ صالح بھی ہوں تو کچھ اعتراض نہیں کیونکہ رونا تو زمانہ کا ہے ایک خلیفہ بے چارہ کیاکرسکتاہے؟
جھمجہا: اب تک نہیں ہوا بعض کہتے ہیں کہ وہی امام اثنا عشر ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ ہوچکے اب یہ ان کے علاوہ ہوں گے۔
فتنہ دجال: خفض ورفع کے یاتو یہ معنی کہ اس کی حالت وشان وشوکت کو بہت بلند فرمایا کہ ایسے رتبہ ظاہری رکھتا ہوگا اور اس قدر ذی شوکت ہوگا اور اس قدر سامان رکھتا ہوگا اور پھر اس کے سامان کی حقارت بیان فرمائی کہ اس کی عنداللہ کچھ بھی قدرومنزلت نہیں اور یہ ظاہری شان صرف تمویہ ودھوکہ ہوگی۔ یایہ کہ آپ ﷺ نے کبھی بلند آواز سے فرمایا اور کبھی پست آواز سے بیان فرمایا جب آدمی زیادہ مبالغہ سے تقریر کرنا چاہتاہے تو کبھی پست آواز ہوجاتی ہے کبھی بلند۔
ابی سعید: کو ابن صیاد کے ساتھ سفر کا اتفاق بعد وفات رسول مقبول ﷺ ہوا تھا۔ تمیم داری کی ملاقات ممکن ہے کہ عالم