کماہو المشہور یا یہ معنی کہ اہل قریہ میں لوگ اس کی کسی پشت میں توشریک ہوں گے۔ ان کو دینا چاہئے چنانچہ بعض روایات میں ہے کہ قبیلہ خزاعہ کے سب سے بڑے شخص کو دیکھ کر دیدو انظروا الی اکبر خزاعۃ۔
جمہور کامذہب: یہ ہے کہ نہ کافر مسلمان کا وارث ہوسکتا ہے نہ اس کا عکس۔ مگر بعض کی یہ رائے ہے کہ مسلمان تو کافر کا وارث ہوجائیگا مگر کافر وارث مسلم نہ ہوگا۔ مرتد کے وارث اگر کافر ہوں تو بالاتفاق اس کامال بیت المال میں داخل ہوگاورثہ کو نہ ملے گا اور اگر ورثہ مسلمان ہوں تو اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ اب بھی ورثہ کو نہ ملے گا۔ بیت المال ہی میں جائیگا۔ بعض فرماتے ہیںکہ مل جائے گا۔ (لان المورث وان ارتد لکن الوارث مسلم) امام صاحب بین بین ہیں کہ کسب اسلام تو ورثہ کو دلایاجائے اورحالت ارتداد کا کسب بیت المال میں رہے۔ وراثت اہل کتاب ومشرکین کاایک حکم ہے لان الکفر ملۃ واحدۃ بعض کچھ فرق کرتے ہیں۔
قتل خطا وعمد: میں عندالامام بھی وارث قاتل محروم رہے گا(خطا کی بعض صورتوں میںوارث ہوگا) ہو اولی الناس بمحیاہ الخ یعنی اقارب کے بعد مولا الموالاۃ امام صاحب کے نزدیک معتبرہے۔ اور یہ ان کی حجت صریح ہے۔ امام شافعی صاحب فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کا مال بیت المال میں جائے گا کیونکہ روایات میں الولاء لمن اعتق آتاہے اس سے حصر مستفاد ہے۔ نیز بعض روایات میں بالتصریح انما الولاء لمن اعتق آتاہے پس ولاء الموالاۃ غیر معتبر ہے۔ مگرحنفیہ کہتے ہیں کہ ولاء عتاقہ کاحصر فرمایا گیا ہے اور یہ ولاء عتاقہ نہیں۔
والثلث کثیر: وصیت ثلث میں جاری ہوتی ہے اور اسی قدر میں وصیت کرنا بہتر ہے بعض علماء فرماتے ہیں کہ ثلث سے بھی کسی قدر کم میںکرنابہتر ہے کیونکہ آپ ﷺ ثلث کو کثیر فرماتے ہیں اس میںگفتگو ہوئی ہے کہ سعد بن خولہ کا انتقال مکہ میں رہتے رہتے ہوگیا یاہجرت کرکے پھر آکر یہاں وفات ہوگئی غرض آپ ﷺ ان کے یہاںوفات پانے پرحسرت فرماتے ہیں کیونکہ دارالہجرۃ وغربت میں انتقال ہوتا تو باعث کمال اجر تھا۔
ماحق امرء مسلم: یاتومنسوخ کہاجائے یا تاویل کی جائے کہ حق سے مراد حق استحبابی ہے یا یوں کہاجائے کہ ولہ مایوصی فیہ کی شرط ہے اور جب یہ شرط موجود ہو تو ایسے حال میں وصیت واقعی بہت ضروری ہے تاکہ اس کے بعد جھگڑا نہ پڑے اورکسی کی امانت یاحق نہ مارا جائے پس جب وصیت کے لائق کوئی چیز ہو تو وصیت ضروری ہے۔
قصہ بریرہ: سے معلوم ہوا کہ مکاتب کی بیع جائز ہے البتہ شرط کتابت ساتھ رہے گی اکثر ائمہ اس کے قائل ہیں امام صاحب بھی فرماتے ہیں بعض ائمہ بیع مکاتب کو ناجائز کہتے ہیں۔ باقی ولاء معتق ہی کی ہوگی اگراس کے خلاف شرط کرے گا تو شرط فاسد ہوگی۔ حضرت عائشہ نے بیع بریرہ میں شرط کی تھی۔ بعض روایات جن سے شرط کرنا ثابت ہوتاہے وہ موول