بہت سی ادویہ سے بعض دفعہ نفع نہیںہوتا مگر ان کے کامل ومجرب ہونے میں کلام نہیںہوتا۔ ایسے ہی یہ علاج ہے اگر نقصان ہوگیا تو علاج سے نہیں ہوا بلکہ بلا اس کے بھی ہوجاتا۔ پس اس علاج کو ایک خاص قسم کے ساتھ مخصوص ماننا ٹھیک نہیں مگر فساد عقیدئہ اہل زمانہ کے خوف سے یہی تاویل بہترہے۔
تعلموا الفرائض: سے یاخاص علم فرائض مراد ہو یا عام فرائض جن کا ایک فرد علم فرائض ومواریث بھی ہے۔
مابقی فہو لک: بھائی منجملہ عصبات کے ہے ذوی الفرض کے بعد جو کچھ باقی ہوگا وہ اس کو ملے گا چنانچہ اس جگہ بنات کو دوثلث، زوجہ کو ثمن،باقی اخ کو دیاجائے گا۔
اقفی کما قفی رسول اللہﷺ: پہلے صاحبوں نے پوتی کو محروم رکھا تھا کہ نصف اخت کو اور نصف بنت کواور بنت الابن محروم۔اور عبداللہ بن مسعود نے اس کو حصہ دلوایا یعنی نصف بنت کو اور ثلث اخت کو اور سدس بنت الابن کو۔
لاولی رجل ذکر: ذوی الفروض کے حصے دینے کے بعد جو کچھ باقی رہے وہ سب سے زیادہ اقرب مذکر کو ملے گا باپ ہو یا بیٹا یا چچا وغیرہ اور اگرمساوی درجہ کے چنداقرب ہوں سب کو تقسیم ہوجائے گا۔
جاء رجل الی النبی ﷺ: ایک سدس اس کوبحیثیت ذوالفروض دلوایا گیا اور دوسرا من حیث العصبیۃ اسی لیے علیحدہ علیحدہ دلوایا تاکہ فرق رہے۔
فاعطاہ السدس ثم جاء ت الخ: سدس جدہ واحدہ کو دلوایا گیا پھر وہ آئی جو اس کے خلاف تھی( یعنی یہ دادی تھی تو پرنانی آئی اور اگر یہ نانی تھی تو پردادی آئی) غرض پہلے کے مخالف تھی چونکہ حیثیت جدیت میں راوی کو شک تھا لہٰذا راوی نے عام لفظ فرمایا۔ حضرت عمر ؓ نے اس آنے والی جدہ سے فرمایاکہ خواہ تم ایک ہو یا دو ہو سدس ہی ملے گا اور اگر دوہوگی تو نصفا نصف ورنہ پورا سدس ایک کے قبضہ میںرہے گا۔
جدۃ مع الابن: (یعنی میت کا والد) اگرجدہ من جانب ام ہے تو سدس بالاتفاق ملے گا اور اگر جدہ من جہۃ الاب ہے تو خلاف ہے۔ بعض کہتے ہیںکہ باوجود حیات پسر کے اس کو بھی ملے گا۔ بعض کہتے ہیںکہ پسر کی موجودگی میں اس کو نہ ملے گا۔وہو قول الامام وقال حدیث ضعیف۔
میراث خال: اس میںتو اتفاق ہے کہ ذوی الفروض اورعصبہ مقدم ہیں۔پس اگر یہ نہ ہوں تو اختلاف ہے۔ امام صاحب اس صورت میںذوی الارحام کو وارث بتلاتے ہیں اور یہ حدیث ان کی حجت ہے۔ امام شافعی کے نزدیک اس صورت میں اس کا ترکہ بیت المال میں جائیگا۔ دوسری روایت بھی موید امام ہے اور یہی جمہور کامذہب ہے کہ ذوی الارحام وارث ہیں۔
فادفعوہ الی اہل قریتہ:آپ ﷺ نے میراث یا تو اس لیے نہ لی کہ النبی لا یرث یاتبرعا نہ لی اور اہل قریۃ کو یاتوتبرعا دلائی گئی