نہیں فرمایا ضرورت کے موقع میں استعمال چاہیے۔
رقیہ: جوکہ شرعاجائز ہوجمہور کے نزدیک ہر ایک مرض میں جائز ہے۔ اور جملہ روایات ممانعت محمول ہیں رقیہ باطل اور رقیہ جاہلیت پر جو غیر معلوم المعنی یا فاسد المعنیٰ ہو۔ البتہ ان تین امرض میں پسندیدہ ہے۔ جیسے یہ امراض خلاف ظاہر ہیں ایسے ان کا علاج بھی رقیہ سے مناسب ہے جو غیر ظاہرالاثر ہے۔ اور جیسے یہ قوی الاثرامراض ہیں ایسے ہی فوری اثر کرنے والا علاج ہونا چاہیے۔ دوسرے امراض جن کے بہت ظاہر علاج ہیں (مثلا درد شکم میں اگر دوا کھائی تو ظاہرہے کہ اس نے اس مادہ کو تحلیل کیا اور درد کم ہوگیا) وہاں بھی رقیہ ہی کی تلاش کرنا بعید از توکل ہے کیونکہ معلوم ہوتاہے کہ علاج معالجہ میں بہت ہی مستغرق ہے کہ ایسے غیرظاہرالاسباب علاج سے بھی مدد چاہتاہے ہاں ظاہر الاسباب امور سے معالجہ کرنا بعید عن التوکل نہیں جیساکہ بھوک کے دفعیہ کے لیے کھانا کھالینا بعید عن التوکل نہیں۔ محققین کی رائے توتوکل میں یہ ہے کہ توکل کامل یہ ہے جو تمام اسباب ظاہری کے حاصل ہونے کے بعد توکل کرے ورنہ بلا اسباب ظاہری تو ہر کوئی اللہ تعالیٰ کو معاملہ مفوض کرنے کو تیار ہے۔ ہاں اسباب موجود ہوںاور پھر سب کو ہیچ سمجھ کر نظر اسی کار ساز حقیقی پر رکھے۔ یہی ہے اعلیٰ درجہ توکل کا۔ مولانا روم فرماتے ہیں ؎
بر توکل زانوائے اشتر بہ بند
اور اکثر علماء جمہور کی یہ رائے ہے کہ تمام اسباب کو کھوکر توکل کرنا درجہ اعلیٰ ہے کہ سبب کوئی موجود ہی نہ ہو بلکہ اسی طرف نظر ہو۔ انکے نزدیک توکل کامل یہ ہے کہ دوا بالکل نہ کرے اور توکل رکھے۔
معوذتین: کارقیہ اور آپ ﷺ سے دیگر منقول رقیہ یہ سب ایک قسم کی دعا ہیں اور ان کاحکم دیگر رقی سے علیحدہ ہے۔ یہ مسنون ومستحب ہیںکیونکہ ان میں دعا ہے اور دعا ہر جگہ مرض وبلامرض کرنا بہت ہی بہتر ہے لکھ کر گلے میںڈالدینا بھی جائز ہے اور پلادینا بھی۔ علاوہ امرض کے اور حاجات کے لیے بھی رقیہ وتعویذ گنڈہ جائز ہے۔ فرس وفیل وغیرہ کی رفتار کے تعویذ لکھنا بھی جائز ہیں۔
قال ہی من قدراللّٰہ: یعنی یہ مؤیدات تقدیر ہیں جو کچھ مقدر ہوگا واقع میں آئے گا لیکن یہ اسباب ہیں ان کے ذریعہ سے وقوع امر مقدر ہوگا۔
الکمأۃ من المن: یعنی اس کی بھی اصل وہی ہے۔یا یہ کہ بلامشقت حاصل ہونے میں اس کے مشابہ ہے۔
تعلیق رقی: وغیرہ کو اگر موثر سمجھے تو مکروہ ہے توکل علی اللہ ہواور ان کو بھی اسباب میں سے سمجھے تو کوئی حرج نہیں۔
تبرید الحمیٰ بالماء: اصل یہ ہے کہ ہر ایک بخار میں یہ علاج نافع ہے بعض افراد کو نقصان ہونے سے علاج میں سقم نہیں آتا۔