میں شریک نہ تھے اور ان کی یہ رائے نہ تھی چنانچہ بعض روایات سے یہ امر ثابت ہے۔
یا یہ کہ بسبب تعظیم کے ان کو چھوڑدیا۔ شبہ یہاں یہ ہوتاہے کہ آنحضرت ﷺ تو بڑے حلیم تھے تمام عمر میں کبھی کسی سے اپنا بدلہ نہیں لیا چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے بھی یہی ثابت ہے۔ پس آپ ﷺ نے اس قصور کا بدلہ بہت جلد کس لئے لیا اور وہ بھی اس تشدد سے کہ صائمین کے صوم نفل کو افطار کرادیا اور لدود کرایا جواب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اہتمام نصوص اور بیان شان نصوص کے لئے ایسا کیا اور جزا دی۔ کیونکہ انہوںنے نص صریح یعنی قول رسول اللہ ﷺ کو بلاواسطہ سنا اورپھر اپنی رائے سے اس کا خلاف کیا آپ ﷺ نے فورا تنبیہ کے لیے سزا دلوادی تاکہ آئندہ اپنی رائے سے کسی امر میں خلاف نصوص نہ کر بیٹھیں اور سزا بھی ایسی دلوائی جو ہمیشہ یاد رہے۔ یہاں سے اہتمام شان نصوص معلوم ہوتاہے کہ کس قدر آپ ﷺ نے احتیاط فرمائی ہے اور اس غفلت اور ترک نص کا بدلہ دیا ہے۔
اب حضرت عائشہ ؓ کا نفی جزا فرمانا بھی درست ہے کیونکہ آپ ﷺ نے اپنے نفس کا انتقام کبھی نہیں لیا اور یہ جزا اپنے نفس کے لیے نہ تھی بلکہ ترک نص پر تھی یا یہ کہ جزاء اساء ۃ کبھی بلا خواہش وارادئہ ایذا رسیدہ کے پہنچ جاتی ہے پس آپ ﷺ کو حالت مرض میں جبکہ وہ تکلیف پہنچی تو آپ ﷺ نے آثار وعلامات سے معلوم کرلیا کہ ان تکلیف پہنچانے والوں کو کوئی سزا ہونے والی ہے پس آپ ﷺ نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کی سزا ان کو پہنچے اور پریشان کرے (ان اللہ شدیدالعقاب) اس لئے جلد آپ ﷺ نے بطور خود جزا وسزا دی تاکہ باری تعالیٰ کی طرف سے سزا نہ ہو۔چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ کا قصہ ہے کہ ایک شخص ان کو سخت الفاظ کہہ رہاتھا اور وہ ساکت تھے آنحضرت ﷺ بھی دیکھتے رہے۔جب حضرت ابوبکر نے جواب دیا تب آپ ﷺ چلے آئے اور دریافت کرنے پر فرمایا کہ پہلے تمہاری طرف سے اس پر فرشتے لعنت کرتے تھے جب تم خود بولے تو وہ چلتے ہوئے۔غرض خود بدلہ لینے سے عذاب الٰہی جاتا رہتاہے اس لئے آپ ﷺ نے شفقتا ایسا کیا۔ جیساکہ ایک عورت اور ایک بزرگ کا قصہ ہے کہ اس کی گستاخی پر آپ نے غلام کوفرمایا کہ طمانچہ مار۔ اس نے تامل کیا تو وہ عورت گر کر مرگئی۔ آپ نے فرمایا کہ تو نے اس کو نہ مارا ورنہ اگر جلد بدلہ لیا جاتا تو سزا من جانب اللہ نہ ہوتی۔غرض جون سی توجیہ کی جائے آپ ﷺ کی غایت شفقت ثابت ہوتی ہے۔ اول تو جیہ کے مطابق شان نصوص بھی انہیں کی غرض سے بتلائی اور دوسری صورت میںذراسی سزا دیکرمنہ کڑواکردینا آسان سمجھا اس سے کہ من اللہ کوئی سزا پہنچے۔
کیٌّ(داغ) جائز ہے لین پسندیدہ نہیں ماافلحنا یا تو یہ مطلب کہ مرض زائل نہ ہوا تھا یا یہ کہ گو مرض دفع ہوگیا مگرجو کام آنحضرت ﷺ کو ناپسندیدہ تھا وہ کوئی فلاح کی بات نہ تھی۔کیٌّ آپ ﷺ سے بھی کرناثابت ہے مگر آپ ﷺ نے پسند