یا یہ تاویل کی جائے کہ یہ دونوں خصلتیں جمع نہیں ہوتیں علی وجہ الکمال، گواحدہما موجود ہو یا دونوں علی وجہ الضعیف۔
بعد ذلک صدقۃ: یعنی یوم اول میں ضیافۃ مع الاکرام ہے اور تیسرے روز تک بھی ضیافت ہے گو صدقہ بھی ہے اور اس کے بعد محض صدقہ ہے۔
زیادۃ فی العمر: کے یہ معنی کہ اس سبب سے خدا تعالیٰ نے اول ہی سے عمر زیادہ قرار دی یعنی اس کا صلہ رحم سبب ہے طول عمر کا۔ یہ ضروری نہیں کہ اول تعیین ہوکہ صلہ رحم کی وجہ سے پھر کم زیادہ ہوا کرے جیسا مثلا زید کی تقدیر میں لکھا ہے کہ یہ پچیس برس کی عمر میں مولوی کہلائے گا اور وجہ اس کی تحصیل علم ہے جو اس نے اس سے پہلے کی ہے اور وہ بھی مقدر ہے۔
ظن اثم: وہ ہے کہ اس کے موافق تکلم بھی کرے (کما قال سفیان) اور بلا تکلم اثم نہیں مثلا ایک شخص کو ہم سارق خیال کرتے ہیںپس ہم کو یہ جائز ہے کہ احتیاط کریں اور اس سے بچتے رہیں۔ہاںگناہ یہ ہے کہ اس کی تشہیر بھی کردیں کہ یہ سارق ہے۔
مزاح: بلاکذب جائز ہے ایسا کہ دوسرے کو رنج نہ پہنچے۔ ممنوع وہ ہے جس سے اس کی تحقیر وتذلیل مقصود ہو۔ یا اس کو رنج ہوتا ہو۔ مصلحت تالیف کے لیے زیادہ مزاح بھی جائز ہے ایک صحابی تھے جن سے آپ ﷺ بھی مزاح کرلیتے اور وہ بھی آپ ﷺ کو کوئی بات کہہ لیتے۔
مدارات فاسق:جائز ہے جو حد سے نہ بڑھے لیکن کلام وغیرہ تک رہے فاسق کی غیبت جائز ہے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے بئس اخو العشیرۃ فرمایا۔
لایدخل الجنۃ من کان فی قلبہ الخ: تاویل تو محشی لکھتے ہیں اور اصل بات وہی ہے کہ یہ مقتضیٰ کبر کا ہے اور ایمان باقی ہے مومن ہی رہے گا۔ ایمان وکبریہ دونوں جمع ہوجائیں تو مزاج مرکب اور غلبہ کا اعتبار ہوگا کبر کا اثر ذاتی تو یہی ہے باقی موانع اور مخالف سے ممکن ہے کہ مزاج بدل جائے۔ دیکھئے ایک نسخہ میں رطب ویابس۔ حار وبارد ومتعدد مزاج کی ادویہ ہوتی ہیں مگر اعتبار اثر غالب اور مزاج مرکب کا ہوتاہے۔
لباس حسن فی نفسہ: برا نہیں (بلکہ بہتر ہے) ہاں کبروتکبر کرنا اور دوسروں کو ذلیل وکم درجہ سمجھنا اور ان کے لباس کو بہ نظر حقارت دیکھنا یہ تکبر کی بات ہے اور یہی ممنوع ہے، یہی کبر ہے۔
یذہب بنفسہ: یعنی اپنے آپ کو کھینچتا ہے اور تکبر کرتا چلا جاتاہے آخر کار متکبرین میں شمار ہوگا اور انکی مانند جزا ملے گی۔ کیونکہ یہ امور قلیل سے کثیر کی طرف چلتے ہیں کبر کے بعض مراتب مذموم نہ تھے مگر وہ غیر کا وسیلہ وذریعہ ہیں کہ آئندہ