سے مروی ہے اور نسئۃ کالفظ زیادہ ہے اب تو کسی جواب کی ضرورت ہی نہیں رہی روایت رطب بالتمر پر بھی امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کاعمل ہوگیا کیونکہ بیع تمر بالرطب نسئۃ کو وہ بھی منع فرماتے ہیں۔
باب البیع قبل بدوا لصلاح
امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ ان روایات کو لیتے ہیں جن سے آنحضرت ﷺ کے سامنے بیع قبل بدو الصلاح ہونا ثابت ہے۔ شوافع اس روایت پر عمل کرتے ہیں حنفیہ کے لئے مرجح احد الروایتین قیاس ہے کیونکہ قبل بدو الصلاح بھی مال متقوم ہوتا ہے یا نہی کو تنزہ پر حمل کیاجائے۔
باب بیع ما لیس عندہ
اس طرح بیع کرنا ناجائز ہے کہ مبیع موجود ہی نہ ہو۔ ہاں اگر کسی اپنی مملوکہ کی بیع کردے (گو اس وقت یہاں موجود نہ ہو) اور دوسرے وقت ادا کردے تو جائز ہے۔ بیع مالم یضمن کو امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ منقول میں منع فرماتے ہیں اور بعض فرماتے ہیںکہ تمام مکیلات وموزونات میںمنع ہے اوروں میں نہیں۔
باب بیع الولاء
ولاء سے اگرحق ولاء مراد ہے تو ظاہر ہے کہ وہ عین نہیں اس لئے بیع ناجائز ہے کما فی الحدیث انما ہی لحمۃ کلحمۃ النسب اور اگر مال ولاء مراد ہے تو بوجہ عدم موجودگی بیع جائز نہیں کیونکہ وہ نہ اس وقت موجود ہے اور نہ آیندہ ملنے اور موجود ہونے کا یقین ہے۔ ممکن ہے کہ مولیٰ ہی غلام سے پہلے فوت ہوجائے وغیرذلک۔
باب بیع الحیوان
بیع الحیوان یدا بید مطلقا جائز ہے خواہ عوض میں ایک ہویا دو چار دس پانچ ہوں، چنانچہ عبدین اسو دین کی روایت سے ظاہر ہے ہاں نسیہ بالکل جائز نہیں خواہ بالتساوی ہو یا متفاضلا وہذا قول امامنا رحمہ اللہ تعالیٰ۔ اور شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ بیع حیوان کو ہر طرح جائز فرماتے ہیںاورممانعت نسیہ ہو یا یدا بید اور متفاضلا ہو یا برابر۔ ان کی موید یہی بعض روایات ہیں اور ممانعت نسیہ کی روایت کو نسیہ من الجانبین پرحمل کرتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ جابر ؓ کی روایت میں نسیہ کے مقابلہ میں ید بید ہے اور ید بالید کا مقابل مطلقا نسیہ ہوسکتا ہے نہ کہ خاص نسیہ من الجانبین۔ نیز احادیث ممانعت قولی ہیں جواز صرف فعلی۔ نیز مقابلہ روایتین میں امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ محرم کو لے رہے ہیں اور شوافع مبیح کو حالانکہ تعارض میں محرم مقدم ہوتاہے۔