اوپر حجت ٹھہرائیں ایک روایت میں انہیں ابوبرزہ ؓ کا قصہ آتا ہے کہ چند لوگوں کے ساتھ سفر میں تھے ان میں سے دو نے ایک فرس کی بیع وشراء کی اور اگلے روز تک گھوڑا علی حالہ بندھا رہا جب اس کا مشتری اس روز زین لیکر باندھنے آیا تو مالک مانع ہوا ،مشتری نے کہا کہ بیع ہوچکی ہے۔ بائع نے کہا کہ میں تو نہیںبیچتا۔ غرض ابو برزہ ؓ سے پوچھا گیا کہا لا أراکما افترقتما۔ پس کیا کسی کے مذہب میں اگلے روز تک بھی خیار ہے اور کیا وہ شخص حوائج ضروریات کے لیے بھی علیحدہ نہ ہوئے ہوں گے۔ زین لیجانے کے واسطے علیحدہ ہونا مصرح ہے پس اگر اس کے معنی شوافع بنادیں تو حنفیہ پر حجت قائم کریں۔
یہ ثابت ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ خیار مجلس کو نہیں مانتے اور دلیل یا تاویل حدیث امام صاحب سے منقول نہیں۔ ہاں امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ سے منقول ہے کہ خیار مجلس تفرق باقوال تک رہتاہے اور حدیث میں تفرق بالاقوال۔۔۔مراد ہے۔ اور ایک امر عیسیٰ ابن ابان سے مروی ہے اور اسی کو امام ابویوسف سے منقول کہتے ہیں کہ تفرق سے تو مراد بالابدان ہے لیکن خیار سے مراد خیار قبل ہے یہی دو امر ہیں جو مروی ہیں۔ وجہ اس تاویل وتوجیہ کی یہ ہے کہ ظاہر حدیث پر مخالفت قواعد کلیہ شرعیہ کی لازم آتی ہے۔ امام طحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے روایت خشیتہ ان یستقیلہ سے استدلال کیا ہے کہ بیع تام ہوگئی۔ ورنہ اقالہ کے کیا معنی ہوں گے۔ صاحبین رحمہ اللہ تعالیٰ کے دوجواب مذکور ہوئے لیکن امام کی شان اس سے ارفع معلوم ہوتی ہے کہ ایسے جواب دیں گو جواب کافی ہیں۔ اس مسئلہ میں تین مذہب ہیں ایک حنفیہ کا کہ بیع تام ولازم ہوجاتی ہے اورخیار مجلس نہیں،۔ دوسرا شوافع کا کہ بیع منعقد ہوجاتی ہے۔ لیکن لزوم نہیں۔تیسرا اہل ظاہر اور بعض محدثین کا کہ بیع منعقد ہی نہیں ہوتی کیونکہ ایک روایت میں لابیع مالم یفترقا وارد ہے۔ پس اس تفصیل مذہب کے بعد بنظر انصاف طحاوی کا استدلال بمقابلہ شوافع صحیح نہیں اہل ظاہر کے مقابلہ میں ہوسکتا ہے ، امام طحاوی جو اعلم الناس بمذہب الحنفیہ ہیں شاید انہوںنے روایات کی طرف توجہ نہیں کی جو ایسا جواب فرمایا ۔ مذاہب ثلاثہ میںبہتر بروئے انصاف مذہب شوافع کا ہے کیونکہ وہ بین بین ہے اور روایات کی تطبیق وتاویل ہوسکتی ہے۔ ظاہریہ ہے کہ امام صاحب کا بھی وہی مذہب ہے جو ظاہرحدیث سے مفہوم ہوتاہے اور ابو برزہ ؓ اور ابن عمر ؓ سب امام کے موافق ہیں اور ان کے اقوال وافعال کی کچھ حاجت نہیں بلکہ تفرق سے بالابدان ہی امام صاحب کے نزدیک مرادہے اور خیارمجلس ثابت لیکن یہ سب علی سبیل التبرع ہے نہ کہ علی وجہ الوجوب واللزوم۔ یعنی تفرق بالابدان تک اختیار رہے گاتبرعا۔ بس متعاقدین کو تبرعا یہ چاہئے کہ اس تفرق تک ایک دوسرے کی مرضی کے موافق کیا کریں گو واجب نہیں۔ اوراس قسم کے امورکا پتہ روایات سے لگتا ہے۔ مثلاکعب کا قصہ ہے کہ وہ ایک شخص سے بطلب دین مسجد میں جھگڑے۔ آنحضرت ﷺ نے بلند آواز سن کر پردہ اٹھایا اورکعب کو فرمایا’’ ضع‘‘یعنی نصف دین معاف کردو اور مدیون سے فرمایا کہ تم اسی وقت اداکرو۔ یہ فیصلہ فضلا وتبرعا آپ