بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
حرف اوّل
میرے احباب میں ایک خاصی تعداد احمدی حضرات کی ہے۔ جن سے میرے مراسم ہمیشہ برادرانہ رہے اور میں نے کبھی محسوس نہ کیا کہ ہم میں کوئی ذہنی اختلاف موجود ہے۔ جب گذشتہ مارچ ۱۹۵۳ء میں احمدی حضرات کے خلاف ملک میں ایک طوفان اٹھا تو میری توجہ اس طرف منعطف ہوئی اور میں نے مرزاغلام احمد قادیانی کی تصانیف کا مطالعہ شروع کر دیا۔ یہ تحریر میرے تأثرات مطالعہ کی آئینہ دار ہے۔
میں اسلام کی بین الاقوامیت اور نسل آدم کی جمعیت کا مبلغ ہوں اور ہر قسم کی تفریق کا خواہ وہ قومی ہو یا ملّی، مخالف ہوں، اور اسلامی فرقہ بندی پہ کچھ لکھنا تضیع اوقات سمجھتا ہوں۔ لیکن جو سوال اس تحریر کا محرک بنا وہ یہ تھا کہ احمدی بھائیوں اور دیگر مسلمانوں میں مجھے، بظاہر کوئی اختلاف نظر نہیں آتا تھا۔ ان کا قبلہ ایک، طریق عبادت ایک، تمدن ایک، معاشرت ایک، قانون ایک، فقہ تو پھر یہ تصادم کیوں ہو۔ کیوں ایک دوسرے سے الجھ کر دنیا کو تماشہ دکھائیں اور پاکستان میں انتشار کی آگ بھڑکائیں؟
اس سلسلے میں میں نے علمبرداران تحریک کے ہر بیان، ہر تحریر اور دیگر لٹریچر کا غور سے مطالعہ کیا اور دوسری طرف مرزاقادیانی، میاں بشیر الدین محمود قادیانی نیز ان کے جریدہ مؤقرہ ’’الفضل‘‘ کی تحریرات ومقالات کو پڑھا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ احمدی حضرات اور دیگر مسلمان ایک دوسرے سے دور جارہے ہیں۔ ان کے درمیان ذہنی دیواریں حائل ہوچکی ہیں اور اس لئے ہر خیرخواہ ملک وملت کا فرض اوّلین ہے کہ وہ بھائی کو بھائی سے ملائے اور ان اختلافی خلیجوں کو پاٹ دے جو انہیں جدا کر رہی ہیں۔
طرفین میں مابہ النزاع ختم نبوت کا مسئلہ ہے۔ علمائے اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ حضورﷺ پہ نبوت ختم ہوچکی ہے اور علمائے قادیان اجرائے نبوت کے قائل ہیں۔ اس مسئلے کا فیصلہ صرف اسی طرح ہوسکتا ہے کہ اگر علمائے احمدیت کی رائے صحیح ہوتو ہمیں سپر ڈال دینا چاہئے اور اگر غلط ہو تو وہ دیگر مسلمانوں کے ہم آہنگ ہوجائیں۔
مذہب ایک عمیق ترین تعصب اور محبوب ترین تعلق کا نام ہے۔ اس کی بنیاد ماں کی