(نسائ:۱۶۴،۱۶۵)‘‘ یعنی پہلے انہیں انبیاء کہا اور پھر رسول۔ انہی کے متعلق دوسری جگہ ہے۔ ’’اولئک الذین اتینہم الکتب والحکم والنبوۃ (انعام:۸۹)‘‘ انہیں خدا نے کتاب اور حکومت اور نبوت دی۔ اس سے ظاہر ہے کہ جسے نبوت ملتی تھی اسے کتاب بھی ملتی تھی۔ قرآن کریم کی رو سے اجزائے ایمان پانچ ہیں۔ اﷲ، ملائکہ، کتب، رسل اور آخرت۔ ان اجزاء کے متعلق ایک مقام پر کہاگیا ہے۔ ’’من اٰمن باﷲ والیوم الاٰخر والملئکۃ والکتب والنبیین (البقرہ:۱۷۷)‘‘ دوسری جگہ کہا: ’’کل اٰمن باﷲ وملئکتہ وکتبہ ورسلہ (البقرہ:۲۸۵)‘‘ یعنی ایک جگہ انبیاء کہا اور دوسری جگہ رسل۔
ان تصریحات (اور قرآن کریم کے ایسے ہی دیگر مقامات) سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ نبی اور رسول ایک ہی سکہ کے دورخ اور ایک ہی حقیقت کے دو گوشے ہیں۔ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ ایک ہی فرد خدا سے علم پانے کی جہت سے نبی کہلاتا ہے اور اس علم (وحی) کو آگے پہنچانے کی جہت سے رسول۔
لیکن آپ یہ سن کر حیران ہوںگے کہ ہمارے ہاں یہ عقیدہ چلا آرہا ہے کہ نبی اور رسول میں فرق ہوتا ہے۔ رسول صاحب کتاب اور صاحب شریعت اور نبی بلا کتاب ہوتا ہے۔ نبی کسی رسول کا متبع اور اس کی شریعت پر عمل کرانے کے لئے آتا ہے۔ اپنی کتاب نہیں لاتا۔ اس عقیدہ کی بنیاد روایات پر ہے۔ یہ دوسرا مقام ہے۔ جہاں مسلمان اپنے فریق مقابل (احمدی حضرات) سے مات کھا جاتے ہیں۔ لیکن معیار اگر قرآن کریم کو رکھا جائے تو پھر احمدی حضرات کا دعویٰ باطل قرار پاجاتا ہے۔ (تفصیل اس کی ساتویں باب میں ملے گی۔ جہاں احمدی حضرات کے دلائل کا تجزیہ کیا جائے گا)
یہاں ایک اور دلچسپ سوال سامنے آتا ہے۔ نبی اکرمﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے کے سلسلے میں جو آیت قرآن مجید میں آتی ہے وہ یوں ہے۔ ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین (احزاب:۴۰)‘‘ {محمدؐ، تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں۔ وہ خدا کے رسول ہیں اور خاتم النبیین۔}
ہمارے ہاں کے مروجہ عقیدہ کی رو سے خاتم النبیین کا مطلب یہ ہوگا کہ خدا نے صرف نبیوں کا سلسلہ ختم کیا ہے۔ جنہیں کتاب نہیں ملتی تھی۔ رسولوں کا سلسلہ ختم نہیں کیا۔ لہٰذا اس آیت کی رو سے نبی اکرمﷺ کے بعد نبی تو نہیں آسکتا تھا۔ رسول مع اپنی کتاب کے آسکتا تھا۔ بہائیوں کا یہی دعویٰ ہے وہ بہا اﷲ کو صاحب کتاب رسول مانتے ہیں۔