مسلمانوں کا اتنا بڑا طبقہ مرزاقادیانی کو نبی مان کر ان کی جماعت میں شامل ہوگیا۔
ہمارے علماء حضرات اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ ان کی آخری تحقیق یہ ہے کہ مرزاقادیانی کی کامیابی کا باعث یہ تھا کہ ان کو انگریزی حکومت کی سرپرستی حاصل تھی۔ اب یہ تو درست ہے کہ انگریزی حکومت کی مذہبی معاملات میں غیر جانبداری اور عدم مداخلت کی پالیسی مرزاقادیانی کے لئے بہت مفید ثابت ہوئی۔ اس پالیسی کی وجہ سے ملک میں ایسا ماحول قائم ہوگیا کہ آزادی کے ساتھ کوئی بھی نیا فرقہ قائم کیا جاسکتا تھا اور ہر طرح کی تحریک چلائی جاسکتی تھی۔ حکومت صرف اس تحریک کو برداشت نہ کرتی تھی۔ جس میں انگریزوں کے سامراج کو کسی طرح کا خطرہ ہو۔ ایسی تحریکوں کو دبانے اور کچلنے کے لئے ہر طرح کے ذرائع استعمال کئے جاتے تھے۔ لیکن اگر کسی تحریک میں انگریزی اقتدار کے لئے خطرہ نہ ہوتو حکومت اس سے تعرض نہ کرتی تھی۔ انگریزوں کے اپنے مفاد کے لئے یہی پالیسی درست تھی۔ اگر کسی تحریک میں حکومت کے خلاف بغاوت کا کوئی شائبہ نہ ہوتو انگریزوں کو اس سے غرض نہ تھی کہ کوئی شخص نبوت چھوڑ خدائی کا دعویدار ہی کیوں نہ ہو۔ انگریزی حکومت کی برکات میں سے ایک یہ آزادی تھی کہ انا الحق کہو اور سولی نہ پاؤ۔
یہی نہیں یہ بات بھی قابل فہم ہے کہ ایک غیر ملکی حکومت اپنے محکوموں کے اندرونی انتشار اور فرقہ بندی کو پسند کرتی ہو۔ جب تک لوگ مختلف فرقوں میں بٹے رہینگے۔ حکومت اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھے گی۔ اس لحاظ سے یہ امر بھی باور کیا جاسکتا ہے کہ احمدیہ تحریک کی صورت میں مسلمانوں میں ایک نئے فرقہ کا اضافہ انگریزوں کے لئے باعث اطمینان تھا اور وہ اس کی ایک حد تک حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ لیکن حکومت کا یہ رویہ اس کی انتشار پسندی کی عمومی پالیسی کا ایک حصہ تھا۔ اس عمومی پالیسی سے علیحدہ احمدیہ تحریک کی بالخصوص سرپرستی سے انگریزوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا۔
البتہ مرزاقادیانی کی تعلیم کا ایک پہلو ایسا تھا جس کی وجہ سے احمدیہ فرقہ مسلمانوں کے دیگر فرقوں کی نسبت حکومت کے لئے زیادہ مقبول ہوسکتا تھا۔ یہ پہلو مرزاقادیانی کا جہاد اور حکومت کی اطاعت کے متعلق نظریہ تھا۔ مرزاقادیانی کی تعلیم کا یہ حصہ اتنی تکرار کے ساتھ اور اتنے مختلف حلقوں کی طرف سے زیر بحث آچکا ہے کہ ہمارے خیال میں اس کتاب کے سب قارئین اس سے بخوبی واقف ہیں اور ہم یہاں اس مسئلہ میں زیادہ تفصیل سے نہیں جانا چاہتے۔ مختصراً مرزاقادیانی نے یہ عقیدہ پیش کیا کہ جہاد کا حکم اپنے معروف معنوں میں منسوخ ہوچکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی