سے نکاح کے معاملے کو اسلام کی فتح کا ایک نشان تصور کر لیا۔ چنانچہ ۱۸۹۲ء میں مرزاقادیانی اپنے ایک خط میں مرزااحمد بیگ کو لکھتے ہیں۔ ’’اور آپ کو شاید معلوم ہوگا یا نہیں کہ یہ پیش گوئی اس عاجز کی ہزارہا لوگوں میں مشہور ہوچکی ہے اور میرے خیال میں شاید دس لاکھ سے زیادہ آدمی ہوگا۔ جو اس پیش گوئی پر اطلاع رکھتا ہے اور ایک جہاں کی اس طرف نظر لگی ہوئی ہے اور ہزاروں پادری شرارت سے نہیں بلکہ حماقت سے منتظر ہیں کہ پیش گوئی جھوٹی نکلے تو ہمارا پلہ بھاری ہو۔ لیکن یقینا خدا تعالیٰ ان کو رسوا کرے گا اور اپنے دین کی مدد کرے گا۔ میں نے لاہور میں جاکر معلوم کیا کہ ہزاروں مسلمان مساجد میں نماز کے بعد اس پیش گوئی کے ظہور کے لئے بصدق دل دعا کرتے ہیں۔ سو یہ ان کی ہمدردی اور محبت ایمانی کا تقاضہ ہے۔‘‘ (کلمہ فضل رحمانی ص۱۲۳)
معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں محمدی بیگم والی پیش گوئی کی نسبت مرزاقادیانی پر سب سے زیادہ اعتراض بعض عیسائی اخبار کر رہے تھے۔ اس وجہ سے مرزاقادیانی کے لئے ایک ذاتی معاملہ کو قومی مسئلہ بنانا نسبتاً آسان ہوگیا اور اس طرح مسلمانوں کی اکثریت کی صحیح قرآنی تعلیم سے لاعلمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مرزاقادیانی نے یہ ظاہرکیا کہ ان کا عمل اسلام کے عین مطابق ہے اور یہ کہ عیسائیوں کا اعتراض مرزاقادیانی کی ذات پر نہیں ہے۔ بلکہ اسلام پر ہے۔ اسی طرح کی ایک مغالطہ دہی کی ایک شدید مثال وہ تحریر ہے جو مرزاقادیانی نے عیسائی اخبار ’’نور افشاں‘‘ کے ایک مضمون کے جواب میں لکھی۔ اس تحریر میں مرزاقادیانی نے پہلے یہ مفروضہ قائم کیا ہے کہ اسلام میں مردوں کے لئے تعدد ازدواج کی نہ صرف غیر مشروط اجازت ہے۔ بلکہ اس اجازت سے فائدہ اٹھانا ایک حد تک واجب ہے اور پھر اسلام کے اس حکم کی حمایت میں عجیب وغریب دلائل پیش کئے ہیں۔ یہاں مرزاقادیانی نے انداز بیان اتنا عامیانہ اختیار کیا ہے کہ مجھے لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ لیکن اس کے سوا چارہ بھی نہیں۔ کیونکہ مرزاقادیانی کے اصل الفاظ نقل کرنے کے بغیر اس بارے میں ان کا رجحان طبیعت اور کردار پوری طرح واضح نہیں ہوسکتا۔ اس لئے بادل مخواستہ حسب ذیل اقتباس پیش کرتا ہوں لکھتے ہیں۔
’’اخبار نور افشاں ۱۰؍مئی ۱۸۸۸ء میں جو اس راقم کا ایک خط متضمن درخواست نکاح چھاپا گیا ہے۔ اسی خط کو صاحب اخبار نے اپنے پرچہ میں درج کر کے عجیب طرح کی زبان درازی کی ہے اور ایک صفحہ اخبار کا سخت گوئی اور دشنام دہی میں ہی سیاہ کیا ہے۔ کسی خاندان کا سلسلہ صرف ایک ایک بیوی سے ہمیشہ کے لئے جاری نہیں رہ سکتا۔ بلکہ کسی نہ کسی فرد سلسلہ میں یہ دقت آپڑتی ہے کہ ایک جورو عقیمہ اور ناقابل اولاد نکلتی ہے۔ اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ دراصل بنی آدم کی نسل