حضرت کہ آپ غلطی کر رہے ہیں۔ اﷲ نے آپ کو نبی بنایا ہے۔ نبوت کا دروازہ کھلا ہے۔ اسے بند کر کے اپنے لئے دشواریاں پیدا نہ کیجئے۔
بہرحال آپ نے ملاحظہ فرمالیا کہ مرزاقادیانی نے خاتم النبیین کا ترجمہ نبیوں کو ختم کرنے والا کیا ہے۔ نبیوں کو پیدا کرنے والا نہیں کیا۔ اس تفسیر کی مزید تشریح ملاحظہ ہو۔ ’’اے بھائیو! ہم مسلمانوں کے لئے بجز قرآن شریف اور کوئی دوسری کتاب نہیں… اور بجز خاتم المرسلین کے اور کوئی ہمارے لئے ہادی اور مقتداء نہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۸۳، خزائن ج۳ ص۱۸۷،۱۸۸)
نزول مسیح کے مشہور عقیدے پہ بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’مسیح کیونکر آسکتا۔ وہ رسول تھا اور خاتم النبیین کی دیواریں اس کو آنے سے روکتی ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ج۲ ص۵۲۲، خزائن ج۳ ص۳۸۰)
ظاہر ہے کہ جو دیوار مسیح کی راہ میں حائل تھی وہ مسیح موعود کو بھی آنے سے روک سکتی تھی۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ایک دیوار ایک پرانے رسول کو تو روک دے اور نئے رسول کے آنے پر اس میں شگاف پڑ جائیں۔
’’سو یہ بات اس (اﷲ) کے سچے وعدے کے برخلاف ہے کہ مردوں (مسیح علیہ السلام) کو پھر دنیا میں بھیجنا شروع کر دے۔ کیا یہ ضروری نہیں کہ ایسے نبی کی نبوت تامہ کے لوازم جو وحی اور نزول جبریل ہے۔ اس (مسیح علیہ السلام) کے وجود کے ساتھ، لازم ہونی چاہئے۔ کیونکہ حسب تصریح قرآن رسول اسی کو کہتے ہیں۔ جس نے احکام وعقائد دین جبریل کے ذریعہ سے حاصل کئے ہوں۔ لیکن وحی نبوت پر توتیرہ سوبرس سے مہر لگ گئی ہے۔ کیا یہ مہر اس وقت ٹوٹ جائے گی۔‘‘ (ازالہ اوہام ج۲ ص۵۳۴، خزائن ج۳ ص۳۸۶)
’’اور یہ بات ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں کہ خاتم النبیین کے بعد مسیح ابن مریم کا آنا فساد عظیم کا موجب ہے۔ اس سے یاتو یہ ماننا پڑے گا کہ وحی نبوت کا سلسلہ پھر جاری ہوجائے گا اور یا یہ قبول کرنا پڑے گا کہ خداتعالیٰ مسیح بن مریم کو لوازم نبوت سے الگ کر کے اور محض ایک امتی بناکر بھیجے گا اور یہ دونوں صورتیں ممتنع ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ج۲ ص۵۴۴، خزائن ج۳ ص۳۹۳)
’’ظاہر ہے کہ اگرچہ ایک ہی دفعہ (مسیح علیہ السلام پر) وحی کا نزول فرض کیا جائے اور صرف ایک ہی فقرہ حضرت جبریل علیہ السلام لاویں اور پھر چپ ہو جائیں۔ یہ امر بھی ختم نبوت کے منافی ہے۔ کیونکہ جب ختمیت کی مہر ہی ٹوٹ گئی اور وحی رسالت پھر نازل ہونی شروع ہوگئی تو پھر تھوڑا یا بہت نازل ہونا برابر ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ج۲ ص۵۷۷، خزائن ج۳ ص۴۱۱،۴۱۲)