موعود ہو یا کوئی اور) پیدا ہونے کی بشارت درج تھی۔ لیکن مئی ۱۸۸۶ء میں ایک لڑکی پیدا ہوگئی۔ جب ۷؍اگست ۱۸۸۷ء کو ایک لڑکا پیدا ہوا تو آپ نے اسے پسر موعود سمجھ کر اس کا نام بشیر احمد رکھا اور اعلان کیا۔
’’اے ناظرین! میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ وہ لڑکا جس کے تولد کے لئے میں نے اشتہار ۸؍اپریل ۱۸۸۶ء میں پیش گوئی کی تھی اور خداتعالیٰ سے اطلاع پاکر اپنے کھلے کھلے بیان میں لکھا تھا کہ اگر وہ حمل موجودہ میں پیدا نہ ہوا تو دوسرے حمل میں جو اس کے قریب ہے۔ ضرور پیدا ہو جائے گا۔ آج ۱۶؍ذیقعدہ ۱۳۰۴ھ مطابق ۷؍اگست ۱۸۸۷ء میں بارہ بجے رات کے بعد ڈیڑھ بجے کے قریب وہ مولود مسعود پیدا ہوگیا۔ فالحمدﷲ علیٰ ذالک! اس لڑکے کا نام بشیر احمد رکھا گیا۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج اوّل ص۹۹، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۴۱)
اس اشتہار کو دیکھئے اور پھر ۸؍اپریل کے اشتہار کو پڑھئے۔ وہاں دوسرے حمل میں جو اس کے قریب ہے۔ کا اشارہ تک نہیں ملے گا۔ بہرحال یہ لڑکا ۴؍نومبر ۱۸۸۸ء کو فوت ہوگیا اور مرزاقادیانی نے مولوی نورالدین صاحب کو لکھا۔
مخدومی ومکرمی مولوی نور الدین سلمہ اﷲ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمتہ اﷲ!
’’میرا لڑا بشیر احمد تیئس روز بیمار رہ کر آج بقضائے رب عزوجل انتقال کر گیا۔ انا لللّٰہ! اس واقعہ سے جس قدر مخالفین کی زبانیں داراز ہوںگی اور موافقین کے دلوں میں شبہات پیدا ہوںگے اس کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ ج۵ نمبر۲ ص۱۲۸)
’’اس واقعہ پر ملک میں ایک سخت شور اٹھا اور کئی خوش اعتقادوں کا ایسا دھکا لگا کہ وہ پھر نہ سنبھل سکے… حضرت صاحب نے لوگوں کو سنبھالنے کے لئے اشتہاروں اور خطوط کی بھرمار کردی اور لوگوں کو سمجھایا کہ میں نے کبھی یہ یقین ظاہر نہیں کیا کہ یہی وہ لڑکا ہے۔ میرا یہ خیال تھا کہ شاید یہی وہ موعود لڑکا ہو۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۱۰۶، روایت نمبر۱۱۶) ’’جس قدر خدا نے مجھ سے مکالمہ ومخاطبہ کیا ہے۔ تیرہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو بجز میرے آج تک یہ نعمت عطاء نہیں کی گئی۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶)
اور باربار فرمایا کہ مجھ پر وحی بارش کی طرح برستی ہے۔ حیرت ہے کہ اس وحی نے پندرہ ماہ میں آپ کو یہ بھی نہ بتایا کہ بشیر احمد عنقریب فوت ہو جائے گا۔ اس لئے یہ پسر موعود نہیں۔ آخر وہ بارش کی طرح برسنے والی وحی کیا کرتی رہتی تھی؟