حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
کتاب کی جلد نمبر ۳ کے صفحہ نمبر (۱۰۱۳)پرفَارِع( ۱۰۶۱؎)پراَلقُبَابَۃُ،اور(۱۱۰۱؎) پر وَاقم نامی مکانات کے تذکرے موجود ہیں ۔حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:مدینہ کے ان بلند مکانات کو نہ گرائو،یہ اس شہر کی زینت (وشان)ہیں ۔(3) ؎ زندگانی کی تقسیم ٹھہری غلط دین ودنیا کی تصویر بدلی آپ ؐآئے تو انقلاب آیا آپ ؐآئے توتقدیر بدلی حضرت محمد ﷺکا یہ ذوقِ تعمیر ات تو سرکاری اور قومی اُمورکی اشد ضروریات کے لیے ہمارا مکمّل راہنما ہے ،تاہم ’’زندگی آمد برائے بندگی‘‘ کے کلچر کو فَروغ دیتے ہوئے نہ خود اپنے اور اپنے اہل بیت کے لیے بلند و بالا رہائشی جگہوں کو پسند فرمایا اور نہ اپنے انتہائی قریب ترین دوستوں کے لیے مرغوب تھا ،حُجراتِ نبوی ﷺکی سادگی پر بہت کچھ لکھا جاچکاہے ،ایک مخلص صحابی کا مدینہ میں گنبد نما مکان دیکھا تو پسند نہ آیا،ادھر اس عاشقِ رسول ﷺکو محبوب ﷺکی کبیدہ خاطری کا علم ہواتو وہ مکان گرادیا، آپ ﷺکے علم میں آیا (خوش ہوئے اور)فرمایا:ہر تعمیر اس کے بانی کے لیے وبال ہے مگر وہ جس کے بغیر گذارہ نہ ہو ۔ (4)المواھب۲/ ۲۱۸میں ہے کہ ایک سادہ سا اوپری مکان آپ ﷺکا اپنا بھی تھا، اس میں دیکھا گیا کہ دارین کے بادشاہ اسی معمولی چٹائی پر آرام فرماہیں جس کے نشانات جسدِ مبارک پر صاف دکھائی دیے اور ایک طرف تھوڑے سے جو رکھے ہوئے تھے سیرت کے یہ دونوں واقعات مسلمانوں کو زندگی کے اس خوبصورت ترین طریقے کا رستہ دکھاتے ہیں جسے میانہ روی اور اعتدال کہا جاسکتاہے ۔ ؎ چمن چمن جو یہ کھِل کھِل کے رنگ لائے ہیں یہ رنگ رنگ کے پانی گل کھلائے ہیں جو مذاہبِ عالم ،ثقافت ِسلیمہ اور دنیائے دانشوراں کے نزدیک حُسنِ حیات بھی ہے ، ذریعۂ سکون بھی اور اُصولِ فطرت بھی ۔رحمتِ کائنات ﷺکے جو حجرے کھجور کے تنوں کے شہیتر اور سُتونوں کے ساتھ پتوں اور مٹی سے بنے ہوئے تھے وہ وصالِ نبوی ؐتک اسی حال میں دیکھے گئے ، حالانکہ آخری دنوں میں مال آنا شروع ہو گیا تھا اور اسلامی حُکومت کا دائرہ،حجاز ،یمن ،نجد ،طائف اور بحرین سمیت دس لاکھ مربعّ میل تک پھیل چکا تھا ۔(5)اس کے باوجود آنحضور ﷺکی سادہ زندگی اور ان کے اہلِ بیت کی قناعت سے لبریز بودوباش دنیا کو دنیا کی حقیقت کا پیغام دے رہی تھی ؎