حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
ﷺنے فرمایا:بالوں کی جڑوں کو خوب اچھی طرح بھگوئو اور کھال تک پانی پہنچائو(اس طرح جب )تم غسل خانہ سے باہر آئو گے تو تمہارے گناہ معاف ہو چکے ہوں گے (17)یہ رحمتِ عالم ﷺکی مبارک سُنّت کی برکا ت اور اللہ کا فضل واحسان ہے کہ ’’متبعِ سُنّت ‘‘کے اس عمل سے جسم کے ساتھ ’’جان‘‘بھی پاک و صاف ہو جاتی ہے ۔بقولِ میر حسن ؎ دیا عقل و ادراک اُس نے ہمیں کیا خاک سے پاک اُس نے ہمیں اللہ کے رسول ﷺچاہتے تھے کہ مسلمانوں کے ہرمجمع میں فرحت انگیز مناظر اور نشاط آمیز گفتگو ہو اور معطّر فضا ہو ،غسل کی لطافت اور نیکی میں اس کے اثراتِ ِخاص کی بناء پر انہوں نے غسل کا حکم دیا اور خوشبو کا شوق دلایا ۔فرمایا :’’جمعہ کا غسل ہر بالغ پر لازم ہے اور یہ کہ مسواک کر ے اورعطرہوتو عطر لگائے(18) ؎ بلبلوں کی وہ صدائیں وہ گلوں کی خوشبو مُعّطر فضائیں وہ پر خم گیسو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا : جو جمعہ کے دن غسل کر ے ،حسبِ استطاعت نظافت حاصل کرے ،اپنا تیل لگائے اور( مسجدآئے )اور دوآدمیوں کے بیچ میں گھسے بغیر (خطبہ جمعہ سننے کے لیے) بیٹھ جائے پھر جس قدر ہوسکے نماز پڑھے ،پھر امام کے خطبہ کے وقت خاموش رہے تو ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں (19)فائدہ:اپنا تیل یا خوشبو کا مطلب یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے پاس عطر رکھتاہے ،اس لئے کہا گیا کہ اپنا تیل لگائے ۔مرعاۃ میں لکھاہے :اس سے اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ آدمی اپنے پاس بقدرِ استطاعت عطر اور خوشبو رکھے ۔سیدِ دوعالم ﷺکی حسین و معطّر تمنّا بھی ہے ،خواہش بھی اور رغبت بھی ہے کہ ان کا ہر امتی صفائی و راعنائی کے تمام تقاضے پورے کر کے جامع مسجد پہنچے ،دوسری طرف خطیبِ مسجد کو بھی غسل ،مسواک اور خوشبوکی مکمل ہدایات کے ساتھ مزید یہ کہ’’اَحْسِنُواھٰذہٖ الصَّلوٰۃَ ،وَاَقُصِرُوْاھٰذِہِ الخُطُبَۃ‘‘ (20)(نماز ِجمعہ میں ایک خوبصورتی اور لائو(وہ یہ کہ ) خطبہ مختصر رکھو !)سُبحان اللہ !حسن ہی حسن اور جمال ہی جمال پھیلادیا ؎ چشمِ تماشاہے حیراں اس حسن و کمال پر قلب و جگر ہیں فرحاں ان کے جمال پر