حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
ستاروں سے مزیّن کیا ) سورج ، چاند اورستاروں کی جلوہ افروزی کا یہ معیاری کام انسانوں کوخوش کرنے کے لیے ہے (36) معراجِ رسو ل ﷺکے مقاصدمیں حسنِ سماوی کی زیارت بھی ہے ،تمام آسمانوں اورجنت کو ان کی آمدپر خوب نکھار اگیا ؎ عرشِ حق کی طرف جب چلے مجتبیٰﷺ جلوہ آراتھا ہر سمت نورِخدا عہد ِ نبوی ﷺمیں عیسائی راہبوں سے متاثر ہو کر کچھ لو گوں نے ایسی بات کردی تھی کہ اللہ کو انسانی زینت پسند نہیں ہے وہ راہبوں کی طرح رہنے سہنے کو پسند کرتا ہے ، لہٰذا میلے کچیلے اور بے لباس رہنے کو اختیار کر و تو اللہ راضی ہو گا ورنہ نہیں ، سات آسمانوں سے اللہ نے تنبیہ فرمائی :قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَاللَّہِ۔(37)’’کس نے اللہ کی زینت کو حرام قرار دیا ؟ سید الاوّلین والآخرین ﷺان قرآنی مضامین کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے اس لیے آپ ﷺبھی زینت کو پسند فرماتے تھے ،ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کی :اے اللہ کے رسول! مجھے پسند ہے کہ میرالباس اجلاہو ، میرے سر پہ تیل لگا ہو (حتیٰ کہ ) میرے جوتے کے تسمے بھی نئے ہوں ،انہوں نے اور کئی چیزوں کا ذکر کیا ، حتیٰ کہ اپنے کوڑے کے متعلق بھی سوال کیا ،تو آپ نے فرمایا:’’ اِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الجَمَالَ‘‘(38)ا للہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتاہے اس لیے اسے پسند ہے کہ اس کا بندہ اچھا پہنے ؎ یہ روح مقدس ہے ،فقط جلوہ گری میں یہ عقل مجرد ہے جمالِ بشری میں اس عقل و خردکا امام اگر جمالِ رسول ﷺکو بنا لیا جائے تو اس کی سمت درست رہے گی ورنہ نہیں ، نبی رحمت ﷺنے اپنی مبارک زندگی میں ہی ایسے شاگرد پیداکر دیے تھے جو اللہ کی خوشی کے لیے پہنتے اور آرائش کرتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو فرمایا :جب تمہیں دوکپڑے نصیب ہیں تو تم نے ایک کیوں پہنا؟ یاد رکھو ! اللہ سب سے زیادہ مستحق ہے اس بات کا کہ اسے خوش کرنے کے لیے تزیین وآرائش کی جائے (39)یہ حقیقت ہے کہ سیرتِ حبیب ﷺہر امیر وغریب کے لیے راہنما ہے ۔ ایک بادشاہ بھی اس سے اپنی زندگی میں روشنی لاسکتاہے اور اِک گداے وبینوابھی ؎ گر فیضِ ظہور شہہِ لولاک نہ ہوتا بالائے زمیں گنبدِافلاک نہ ہوتا حسنِ سیرت سے ناواقف لوگ جو میرے پیارے رسول ﷺکی سیرت کو اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ مسنون زندگی تو آج کے متوسّط مسلمان کے لیے بھی ناقابل عمل ہے اور وہ ہر ایک کے لیے غربت ،افلاس ،پھٹے